اے سی مستوج اور تحصیلد ار موڑکھو بے گناہے بونی کے دفتر میں ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار خود پٹواری ہیں۔عمائدین بونی کی پریس کانفرنس

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) سب ڈویژن مستوج کے ہیڈ کوارٹر بونی کے معززین فضل الرحمن، لطیف الرحمن ایڈوکیٹ، کونسلر معراج حسین، برات خان، قوت شیر ، صادق الرحمن اور دوسروں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ بونی کے گاؤں کروئے جنالی سے متصل وسیع وعریض ریور بیڈ کو لینڈ سیٹلمنٹ کے ریکارڈ میں اس گاؤں کے شاملات کے طور پر درج کرکے اس کی ریکارڈ متعلقین کو فراہم کی جائے جبکہ مقامی پٹواری قانون کو بالائے طاق رکھ کر ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔ بدھ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گزشتہ دنوں بونی میں پٹواریوں کے دفتر میں پیش آنے والا ناخوشگوار واقعہ بھی اس بنا پر پیش آیا تھاکہ پٹواریوں نے اسسٹنٹ کمشنر مستوج کو اس ریور بیڈ کے کاغذات پیش کرنے سے انکارکردیا اور سب ڈویژن کے ذمہ دار ترین افسر کے ساتھ پٹواریوں کا روئیے سے خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ کس طرح پیش آسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 1992ء سے کروئے جنالی کے عوا م نے اس ریور بیڈ کو دریا بردگی سے بچانے میں انتھک کام کیا اوروہ اس جگہے کو پھر بھی عوامی مقاصد کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے اس حق سے دستبردا ر ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ یہ کروئے جنالی کے شاملات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال ہزہائی نس سر آغا خان کے تشریف آؤری کے موقع پر اس میں ڈیڑھ لاکھ افرا د کے لئے دیدار گاہ بنا یا گیا تھا اور اسی طرح یہاں کھیلوں کے لئے میدان اور بچوں کیلئے تفریح گاہ بنایا جاسکتا ہے۔ معززین بونی نے لینڈ سیٹلمنٹ میں پٹواریوں کی جانب داری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ان کی وجہ سے اب ہرگاؤں میں خانہ جنگی کا ماحول بناہوا ہے جہاں مختلف برداریوں کے درمیان زمین کے تنازعات پید اہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کہیں بھی غیر آباد جگہوں، چراگاہوں، ریور بیڈ اور پہاڑی مقامات کو قریبی گاؤں کے ساتھ شاملات نہ دیکھا کر بہت ہی بڑا جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے جس میں کا غ لشٹ بھی شامل ہے۔ انہوں نے اے سی مستوج اور تحصیلد ار موڑکھو کو بے گناہ قراردیتے ہوئے کہاکہ بونی کے دفتر میں ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار خود پٹواری ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔