ترش و شیرین،ایک چراغ اور بجھا، اور بڑھی تاریکی

……….نثار احمد ……..
استاذ الاساتذہ، استاذ المجاہدین مولانا سمیع الحق رح کو نامعلوم افراد نے گھر میں گُھس کر انتہائی بےدردی سے شہید کر دیا. مولانا صاحب کی اِس پُراسرار، اندوہناک اور مظلومانہ شہادت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے. مولانا سمیع الحق صاحب ایک فرد ہی نہیں، بلکہ اپنی ذات میں ایک پوری انجمن تھے. آپ کی شخصیت تہہ در تہہ ہمہ جہت پہلو لیئے ہوئے تھی. دو دفعہ رُکنِ سینٹ رہنے والے یہ بوڑھا مولانا ایک معروف دینی ادارے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مدرّس، ایک ممتاز مذہبی اسکالر اور فعال دینی سیاسی رہنما بھی تھے. پاکستانی کی جہادی اور دینی سیاسی میں آپ کا جیتا جاگتا تابناک کردار ناقابلِ فراموش رہے گا. آپ کی بھرپور تحریکی زندگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب انیس سو چوہتر میں قادیانیوں کے کفر کا مقدمہ قومی اسمبلی میں زیرِ بحث آیا تب مطلوبہ شواہد اکٹھا کرنے والی متعلقہ کمیٹی کی طرف سے فراہم کردہ مواد کی بنیاد پر قادیانیت کے خلاف تاریخی آئنی دستاویز کی تحریر و تدوین مفتی تقی عثمانی صاحب اور آپ کے حصے میں آئی تھی لیکن آپ کو قومی اور بین الاقوامی شہرت اُس وقت ملی جب آپ کے والد مولانا عبد الحق کا قائم کردہ مدرسہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک افغان جہاد کے لئے بیس کیمپ کے طور پر متعارف ہوا. افغانستان کے بڑے بڑے نامور طالبان رہنما آپ کو اپنا استاد اور روحانی والد کہنے پہ فخر محسوس کرتے تھے. نہ صرف مشہور زمانہ سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے آپ صدر رہے بلکہ متحدہ دینی محاذ، ملی یکجہتی کونسل، دفاع افغانستان کونسل، متحدہ مجلس عمل اور دفاع پاکستان کونسل میں بھی آپ کا کردار قائدانہ رہا . نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف باقاعدگی کے ساتھ اس شدت و تسلسل سے آواز اُٹھائی کہ سینئر کالم نگار نذیر ناجی اپنے کالم میں آپ کا تذکرہ “مولانا ڈرون” سے کرتے رہے. آج اس ضعیف العمر سفید ریش انسان کی خون میں لت پت لاش دیکھ کر نذیر ناجی اپنی اس ہتک آمیزی پہ ضرور شرمندہ ہوئے ہوں گے. جہادی اور سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ قلمی محاذ میں بھی آپ اگلے مورچوں میں ہی رہے. اہم قومی و بین الاقوامی ایشوز پہ آپ کی تحریریں عوامی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں . آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل “مشاہیر بنام مولانا سمیع الحق” آپ کی ایسی تصنیف ہے جسے پڑھ کر قاری حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا ہے. مختلف نامی گرامی اور دیدہ و بینا شخصیات کی طرف سے مولانا عبد الحق اور آپ کو لکھے گئے خطوط تاریخ کے طالبعلموں کے لئے قیمتی اثاثہ ہیں. حکومت کی زمہ داری ہے کہ آپ کی بہیمانہ شہادت کی ٹھوس تحقیقات کرکے آپ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دے.. اس عظیم سانحے پر ہم آپ کے جملہ عقیدت مندوں بالخصوص حقانیز کے غم میں برابر کے شریک ہیں..اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ دینی مساعی کو قبول کر کے آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے.

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔