حجاب پر پابندی کا خاتمہ

……….محمد شریف شکیب
سات سمندر پار سے ایک خوش آئند خبر آئی ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان نے 181سال بعد باپردہ ہوکر کانگریس میں آنے پر پابندی ختم کردی ہے۔ ریاست مشی گن سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والی مسلمان رکن کانگریس راشدہ طالب اور ریاست منی سونا سے منتخب ہونے والی الہان عمر نہ صرف حجاب پہن کر کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئیں بلکہ انہوں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھالیا۔ جس روز دونوں مسلمان خواتین کانگریس میں آئیں اتفاق سے اسی روز حجاب پر پابندی ختم کرنے کے قانون پر ایوان میں رائے شماری ہوئی اور پابندی ختم کرنے کے حق میں اکثریتی ووٹ پڑے ۔ اگرچہ کانگریس سے حجاب پر عائد پابندی ختم کرانے میں راشدہ اور الہان کا کوئی کردار نہیں تھا۔تاہم انہیں یہ اعزاز ضرور حاصل ہوا ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار وہ باپردہ ہوکر ایوان کے اجلاس میں شریک ہوئیں۔یہ قیاس کرنا قبل از وقت ہے کہ امریکی اسلامی شعائر سے متاثر ہوکر باپردہ خواتین کو پسند کرنے لگے ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ بے پردگی سے وہ اکتا گئے ہوں گے۔ شاید کسی نے انہیں باور کرایا ہو کہ باپردہ باادب اور بے پردہ بے ادب ہوتی ہے۔ اور جو بے ادب ہوتی ہے وہ ہمارے مطابق بے نصیب ہوتی ہے۔امریکیوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ مغربی ممالک ، امریکہ اور کنیڈا میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ وہاں بسنے والے مسلمانوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے اقدار کو مضبوطی سے تھامے رکھاہے۔ اپنے کردار ،گفتار اور کارگذاری سے غیر مسلموں کو متاثر کیا۔جس کی وجہ سے غیر مسلموں کی بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہورہی ہے۔ دوسری جانب اسلامی ملک کہلانے والے ممالک میں اونچے طبقے کے لوگ مغربی کلچر کو زیادہ پسندکرتے ہیں۔اس مراعات یافتہ طبقے کے نوجوان اور خواتین کی بودوباش اور طرز زندگی دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ اسلام آباد، پنڈی، لاہور، پشاور، حیدر آباد اور کراچی میں نہیں، بلکہ لندن، ایمسٹرڈم، پیرس ، نیویارک، واشنگٹن،بون، فرینکفرٹ اور ہانگ کانگ میں رہتے ہیں۔بغیر بازو والے شرٹ، جگہ جگہ سے پھٹے جینز،پاوں میں ہوائی چپل پہنے شولڈر کٹ بال بکھیرے جب یہ خواتین شاپنگ کے لئے نکلتی ہیں توکسی دوسرے سیارے کی مخلوق لگتی ہیں۔ کراچی میں کچھ عرصہ قبل ایسی خواتین کو سبق سکھانے کے لئے چھرا گروپ وجود میں آیا تھا۔ جو راہ چلتی نیم برہنہ لڑکیوں کو چھریوں کے وار کرکے لہولہان کرتا تھا۔ ان وارداتوں کے بعد کراچی میں سرعام عریانی میں کافی کمی آئی تھی۔ ان برگر خاندانوں کا تعلق سیاست دانوں، اراکین پارلیمنٹ،صنعت کاروں، بڑے تاجروں،درآمد و برآمدکنندگان اور خاطرخواہ اوپر کی کمائی والے سرکاری افسروں سے ہے۔ ان میں استثنیٰ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔تاہم دولت کی ریل پیل کے باوجود اسلامی طرز پر سادہ زندگی گذارنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہم نے مغرب والوں کی ہر بری عادت کو اپنانا اونچے خاندان سے تعلق کا معیار بنالیا ہے۔ لیکن ان کی اچھی عادتوں کو اپنانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔خدا کرے کہ احترام انسانیت، سماجی خدمت ، سچ بولنے اورصفا ئی کی جو عادت اہل مغرب نے اپنائی ہے وہ بھی ہمارے اونچے طبقے کے لوگ اپنا لیں۔ اورہمارے لئے رول ماڈل بن جائیں۔ سماجی اور ثقافتی اقدارکی تبدیلی کے اس ماحول میں بعید نہیں کہ یورپ کے ننگ دھڑنگ لوگ اپنے جسم کو ڈھاپنا اور باپردہ رہنا شروع کردیں اور ہمارے ہاں کے نقال بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے عریانی سے اجتناب شروع کردیں۔ایک دوست نے موٹر سائیکل میں پٹرول ڈالنے والوں کے لئے ہیلمٹ کے استعمال کی تعریف کرتے ہوئے اپنی اس معصوم خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بازاروں میں کپڑے، کاسمیٹکس اور دیگر زنانہ استعمال کی چیزیں خریدنے والی خواتین کو سامان بیچنے کواگر تاجرحجاب سے مشروط کریں تو معاشرے میں ایک انقلاب آئے گا۔یہ تجویزہمیں بھی اچھی لگی۔ یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اچھی لگے وہ آپ کو مل بھی جائے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز اس کے پاس نہ ہو۔ وہی اسے اچھی لگتی ہے۔ بات امریکی کانگریس کی باپردہ ممبران سے شروع ہوئی تھی۔ اگر ہمارے ہاں بھی حلف کے نام پر املا پڑھنے کے بجائے قرآن پاک پر اراکین پارلیمنٹ سے حلف لیا جائے تو کرپشن میں خاطر خواہ کمی کی امید کی جاسکتی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔