خرد کا نام جنوں پڑگیا

………..محمد شریف شکیب………..
وزیراعظم عمران خان نے انوکھی بات کی ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ لیڈر ہی نہیں جو حالات کے مطابق یو ٹرن لینا نہیں جانتا۔انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ نپولین بوناپارٹ اور ہٹلر نے یوٹرن لینے سے انکار کیا اور جنگ عظیم میں تاریخی شکست سے دوچار ہوئے۔ میاں نواز شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا۔ جھوٹ بولا اور پھنس گئے۔یو ٹرن ایک انگریزی اصطلاح ہے جس کے لفظی معنی سڑک پر جاتے ہوئے 180ڈگری زاویے سے مڑ کر واپس اس طرف جانا ۔جس طرف سے آرہے تھے۔ یوٹرن کی مزید تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی شخصیت یا ادارے کا اپنی پالیسی ، پروگرام اور منصوبے کے بالکل الٹ کام کرنے کو یوٹرن کہا جاتا ہے۔یوٹرن کی اصطلاح موجودہ حکومت کے حوالے سے اس کے سیاسی مخالفین نے مشہور کردی ہے۔ اسے سیاسی ناتجربہ کاری کہیں ، سادگی یا اخلاص کا نام دیں۔ وزیراعظم اس کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔حالانکہ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ یوٹرن سے بھری پڑی ہے۔ملک کے آئین میں یہ درج ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ریاستی عمل داروں اور اداروں کے ہاتھوں لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہیں۔ آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ اور دیگر مراعات لینے والے اداروں کے اہلکار قوم کے خادم ہیں جبکہ عملی طور پر قوم کے یہ تنخواہ دار ملازمین نے ہمیشہ خود کو حاکم اور عوام کو محکوم گردانا ہے۔کسی سرکاری افسر یا اہلکار کی تقرری ، تنزلی یا تبادلے کا حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ کام عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا جارہا ہے۔ حالانکہ عوام کا اعشاریہ ایک فیصد مفاد بھی اس خرافات میں نہیں ہوتا۔ سارا نفع نقصان ’’ مجاز حکام ‘‘ یا تقرر، ترقی یا تنزلی پانے والے کا ہوتا ہے۔ سیاسی اور انتظامی طور پر ملک اور اداروں کو چلانے والے خود کو ہی عوام سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں عام آدمی کی اصطلاح بھی حکومتی یا سرکاری اہلکاروں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بجلی، گیس، تیل ، اشیائے خوردونوش، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ کیا جاتا ہے یا ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سے ’’ عام آدمی‘‘ متاثر نہیں ہوگا۔ بات تو سچ ہے کیونکہ ان مخصوص عام آدمیوں کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، آنا جانا،پینا پلانا سب سرکاری کھاتے میں ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ آٹے دال کا کیا بھاو ہے۔ جب آلو ساٹھ روپے کلو فروخت ہورہے تھے تو کسی دل جلے نے سابق وزیر اعظم سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آلو کی فی کلو قیمت کیا ہے۔ تو انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا۔ کہ یہی کوئی پانچ روپے کلو سے زیادہ تو نہیں ہوگی۔وزیر اعظم اگر عوامی مفاد کے لئے پالیسیوں میں یوٹرن کو جائز قرار دیتے ہیں تو ہم بھی ان کے حامی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت، افغانستان اور ایران جیسے پڑوسیوں سے مسلسل کشیدگی والے تعلقات کو دوستی میں بدلنا ہو ۔ تو یہ یوٹرن قومی مفاد میں ہے۔ دولت مند ممالک اور اداروں سے بھاری سود پر قرضے لینے کے بجائے انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا ہو تو یہ عین قومی مفاد میں یوٹرن ہے۔ لیکن عوامی بہبودسے وابستہ احکامات، اقدامات، فیصلوں، پروگراموں اور پالیسیوں پر یوٹرن لینا دعا کو دغا اور محرم کو مجرم بنانے کے مترادف ہوگا۔ ایسی صورت میں یہ دلیل قابل قبول نہیں ہوگی کہ لفظ تو وہی ہے۔ انہوں نے صرف ایک نقطے کا اضافہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین تو ان کے سینکڑوں یو ٹرنز کی فہرست گنواتے ہیں اور وہ ان یوٹرنز کو سیاسی گناہ گردانتے ہیں۔لیکن وزیراعظم نے یوٹرن کو عین کارثواب قرار دے کر مخالفین کی بولتی وقتی طور پر بند کردی ہے۔ تاہم اپنے موقف کی تائید میں اگر وزیراعظم اپنے چند اہم یو ٹرنز کا تذکرہ کریں جن سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچا ہو۔ یا پہنچنے کی توقع ہو۔ تو قوم مخالفین کے الزامات پر کان دھرنا چھوڑ دے گی۔اور سیاست کے طالب علموں کی ایک بڑی غلط فہمی بھی دور ہوگی۔بے شک ادب کے طلباوطالبات اسے حسرت موہانی کی اس مشہور نظم سے مشابہہ ہی کیوں نہ گردانیں۔ ’’ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے۔۔ وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے۔۔ دلوں کو فکر دوعالم سے کردیا آزاد۔۔ ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے۔۔ خرد کا نام جنوں پڑ گیا۔ جنوں کا خرد۔۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔