خطیب شاہی مسجد چترال،،، ایک سچا عاشق رسولؐ ۔۔۔۔

……….۔۔ شیر جہان ساحلؔ

حضرت سیدنا اکاشاؓعرب کے بددو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور ہر وقت پیغمبراسلامؐ کے خدمت میں رہتے تھے۔ حجتہ الودع کے بعد حضور رسالت مآبؐ مدینہ تشریف لائے اور مسجد نبوی میں تمام صحابہ کرمؓ کا ایک اجلاس بلایا۔ اس اجلاس کےآخرمیں آپؐ نے تمام  صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمائے کہ میرا آخری وقت قریب آرہا ہے اسلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے خطائیں معاف کیے جائیں اور میرے دل میں کسی کے لئے بھی کدورت نہیں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپؓ میں سے کسی کے دل میں کوئی کدورت ہو، یا کبھی میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی سے کوئی غلط کیا ہو،یا کسی کے واجبات میرے اوپر ہیں یا کبھی کسی کو پیٹاہوں تو وہ آگے آئیں اور مجھ سے حساب برابر کرے۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہے اور رونے لگے اور عرض کئے یا رسول اللہؐ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں آپ رحمت اللعالمین ہیں اور اخلاق کے اعلی مرتنے پر ہیں ہم اور آپؐ سے بدلہ!!! اتنے میں آخری صف میں بیٹھا ہوا صحابی حضرت اکاشاؓ کھڑا ہوا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہؐ غزوہ تبوک کے وقت آپؐ نےپوچھا تھا کہ صبح جلدی جگانےکی ذمہ داری کون لے گا اور میں نے ذمہ داری لیاتھا اور تھکان کی وجہ سے صبح مقررہ وقت پرآپؐ اوردوسرے صحابہؓ کو نہ جگا سکا تو آپؐ نے میرے پیٹھ پرہاتھ اٹھایا تھا اوراب میں اپنا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر مجلس میں شریک دیگر صحابہ طیش میں آئے اور تلوارین نیام سے باہر نکال کر اکاشاؓ کو مارنے کی تیاری کئے اور اسرار کئےکہ اپنا موقف بدل دو ورنہ مار دئیے جائوگے۔ مگر اکاشاؓ بضد تھا اور کہا میں نے اپنا بدلہ لینا ہے صحابہ کرامؓ کھڑے ہوئےاوراکاشاؓ کو مارنے کی تیاری کئے تو حضورؐممبر سے نیچے اُترا اور فرمایا کہ سب لوگ ہٹ جائیں کوئی بیچ میں نہیں آئے گا۔ اکاشاؐ کا حساب میرے اوپر ہے اور میں اپنےاوپر کسی کا حساب نہیں رکھنا چاہتا ہوں قیامت کے دن کسی کا حساب میرے اوپر نہ ہو۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنا پیٹھ اکاشاؓ کی طرف کرکے فرمایا کہ اپنا حساب چکتا کرو۔ اکاشاؓ نے کہا نہیں یہ ناانصافی ہے جب آپؐ مجھے سزا دیا تھا اس وقت میرے پیٹھ پر کوئی کپڑا نہیں تھا اور آپؐ کو بھی قمیص اُتارنا ہوگا۔ اورآپؐ نے فورا قمیص اپر کرکے اتارنے لگے تواکاشاؓ فورا آپؐ کے دائیں کندھے کو جا کر چوما اورآپؐ کے قدموں پرگرکرچیخ چیخ کررونے لگا اورکہنے لگا کہ یا رسول اللہؐ آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ نبوت کا مہر دائیں کندھے پر ہوتا ہے اور جس کسی کی نظراس پرلگےاللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دیتا ہے اورآج اس موقعے کو میں کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس کے بعد عاشقان مصطفیؐ کی جان میں جان آگئی اورمسجد نبوی میں خوشی کی لہر پیدا ہوئی اورتمام صحابہ کرامؓ نے اکاشاؓ کو مبارکباد دئیے۔ چونکہ اس مجلس میں سارےعاشقان رسولؐ موجود تھےمگرایک حضرت اکاشاؓسب پر بازی لے گیا۔ اور مہر بنوتؐ کو چوما اور جہنم کی آگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئےخود کو محفوظ کیا۔

پچھلے دنوں جب شاہی مسجد چترال میں نماز جمعہ کے دوران عاشقان مصطفیؐ کے سامنے جب ایک معلون شخص نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تو عاشقان مصطفیؐ نے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اسے شخص کو جہنم وصل کرنے کے لئے آگے بڑھے اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کئے توخطیب شاہی مسجد چترال جناب خلیق الزمان صاحب نے اسے بچا کر قانوں کے حوالہ کیا۔ چونکہ خطیب صاحب کے لئے یہ ایک جان لیوا مسلہ تھا کیونکہ عاشقان مصطفےؐ کے سامنے گستاخ کو بچانا گستاخی کے مترادف تھا مگر خطیب شاھی مسجد چترال نے یہ خطرہ موڑ لیا۔ مگر ہمیں حقیقت کو سامنے رکھ کر دیکھنا ہوگا۔

 یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہمارے آئین میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے واضح قانون موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہم کبھی کبھار جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ کہ ناموس رسالت کی خاطر ہماری جان بھی چلی جائے تو دریغ نہیں۔

اب حالیہ واقعے کی طرف آتے ہیں۔ کہ اگر خطیب شاہی مسجد چترال مولانا خلیق الزمان اس معلون کو پولیس کے حوالہ نہ کرتے تو یقیناً عاشقان مصطفےؐ اسے جہنم وصل کردیتے اوراس کے بعد کی صورت حال شاید پیچیدہ ہوجاتا۔ وہ یون کہ پولیس حرکت میں آتی اور قانون ہاتھ میں لینے کے جرم میں کئی لوگوں کو گرفتار بھی کرتی میڈیا میں بار بار اس مسلے کو منفی انداز میں اٹھایا جاتا اور چترال اورچترالیوں پر بھی بے امنی اور غیر مہذب ہونے کا لیبل لگ جاتا اور اینٹرنیشنل میڈیا میں بھی چترال کی بدنامی ہوجاتی اور لوگ اس ایشو پر مضمون لکھنے لگتے، ٹاک شوز میں بھی منفی کفتگو ہوتے اور منفی پروپگنڈےکا بازار گرم ہوتا۔ جو کہ اچھا اقدام نہیں تھا۔ مگر پہاڑون کی دامن میں واقع یہ وادی جسے دنیا چترال کے نام سے جانتی ہے ایسے ایسے سپوتون کو اپنے گود میں جنم دیا ہے جو اس وادی کو امن اور محبت کا گہوارا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اوراس وقت اس تمام واقعے کا سہرا خطیب شاہی مسجد چترال مولانا خلیق الزامان کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس معلون کو بحوالہ پولیس کیا اور اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈال دیا۔ جی ہان خطیب خلیق الزمان کا نام چترال کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے جس مشکل وقت میں عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہان چترال اور چترالیون کو ایک بڑی تباہی سے بچایا وہاں سچا عاشق رسولؐ ہونے کا بھی ثبوت دیا اور یہ سارا صورت حال دیکھ کر مجھے حضرت اکاشاؐ کی یاد آئی کہ عاشقان رسولؐ کے درمیان رہ کر سب پر بازی لے جانا کسطرح اہم ہوتا ہے.

 جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ چترال میں موجود اس میانہ روی، مساوات اور اخوت کی جو فضا اب تک قائم ہے تو وہ صرف اور صرف ایسے ایسے سپوتون کی بدولت ممکن ہوتا چلا آرہا ہے۔ جو اپنے جان و مال کو تو خطرے میں ڈال دیتے ہیں مگر چترال کی نام کو داغدار نہیں کرتے۔ اور یقیناً ہمیں ایسے فرض شناس فرزندون پر فخر ہونا چائیے۔

چونکہ اس واقعے کے بعد جہان ایکطرف عام لوگوں کو تھوڑی بہت دقت کا سامنا ہوا مگر دوسری طرف سارا پریشر خطیب شاہی مسجد جناب خلیق الزمان پر پڑا اور مشتعل افراد نے اس کی گاڑی کو آگ لگایا اور اسے مارنے کی بھی کوشش کئے۔ خطیب صاحب نے اپنے منصب کی لاج رکھ کر جس فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی اور اب یہ ہمارا فرض شناسی باقی ہےکہ ہم خطیب صاحب کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس وقت خطیب صاحب یقیناً ذہنی دبائو کا شکار ہونگے اور ایسے وقت میں اس کے ساتھ صرف اور صرف اظہار ہمدردی کے ضرورت ہے ۔ کیا ہم ملکر یہ نہیں کرسکتے ؟؟؟….. جی ہاں بلکل کرسکتے ہیں۔ اور اظہار ہمدردی کا سب بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سب انفرادی طور پر ایک ایک گلدستہ لیکر شاہی مسجد جائیں گے اور نیک خواہشات کے ساتھ یہ گلدستہ خطیب صاحب کے حضور میں پیش کریں گے اور خطیب صاحب کی اعلی کارکارگی اور معلون کی گرفتاری کی خوشی میں بارگاہ الہی میں شکرانے کی نماز موصوف کی امامت میں ادا کریں گے۔ تو یقیناً اس مشکل وقت میں ہماری طرف سے بہترین تعاون اور حوصلہ افزائی ہوگی اور ان عناصر کے لئے سبق ہوگا جو چترال کے امن کو خراب کرنے کی ناکام شازش کرتے رہتے ہیں۔ اور ضلعی و صوبائی حکومتوں سے پرزور  اپیل ہے کہ وہ خطیب صاحب کی مالی نقصان کا جلد از جلد ازالہ کریں۔

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔