داد بیداد ….خبر غیر معتبر ٹھہری

سپریم کورٹ کے اندر مشہور زمانہ اصغر خان کیس کے حوالے سے مقدمے کے سلسلے میں عدالت کے معاون تفتیش کا ر ایجنسی نے مو قف اپنا یا ہے کہ 25سال پہلے اصغر خان کیس اخبارات میں آنے والی خبروں کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا چونکہ خبر کا کوئی اعتبار نہیں خبر کی بنیاد پر مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا یا جا سکتا اس لئے اصغر خان کیس کو خا رج کر دیا جائے یہ مقدمہ 1993ء میں دائر کیا گیا تھا مقدمے کے مد عی ریٹائرڈ ائیر مار شل اصغر خان نے اس مقدمے کے ذریعے استد عا کی تھی کہ 1990ء کے انتخا بات میں مخصو ص لو گوں کو کامیاب کرنے کے لئے حکومت نے کثیر رقم سر کاری خزانے سے خرچ کر کے اسلامی جمہوری اتحاد بنائی اور آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے سر کاری خزانے کا پیسہ خرچ کر کے مخصوص لو گوں کو کامیاب کرا یا گیا اب اُن لو گوں کی حکومت کرپشن ، بد عنوانی اور اختیارات کے نا جائز استعمال کے جرم میں ختم کی جا چکی ہے لہذا عدالت عظمیٰ آئی جے آئی کے نا م سے سیا سی اتحاد بنانے والے سر کاری اداروں اور افیسر وں کو عدا لتی کٹہرے میں لا کر قو می خزانے کو انتخا بات میں استعمال کرنے والوں کا احتساب کرے 25سالوں تک یہ مقدمہ چلتا رہا پردہ نشینوں کے نام عدا لتی رپورٹروں نے اخبارات میں بار بار شائع کئے ججوں کے ریمارکس بھی آتے رہے آئی جے آئی کے لیڈروں اور ہمنوالو گوں نے عدا لت میں پیش ہو کر اپنے بیا نات میں بھاری رقوم تقسیم ہونے کا اقرار کیا اور کہا کہ پیسے انتخا بات کے دوران ہمیں دیے گئے تھے مگر انتخا بی مہم کے لئے نہیں کسی اور ’’ نیک مقصد ‘‘کے لئے دیے گئے تھے اور جو نیک مقصد تھا وہ قو می مفاد میں تھا 25سال بعد ایک سہانی صبح کو خبر آگئی کہ ’’ خبر ‘‘ کا کوئی اعتبار نہیں گویا خبر غیر معتبر ٹھہری اگر واقعی ’’خبر ‘‘ غیر معتبر ہے تو پا نا مہ کیس کا کیا بنے گا ؟ اپریل 2016ء میں پا نامہ کیس بھی خبر کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا پا نا مہ پیپرز میں آف شور کمپنیوں کے حوا لے سے خبر شائع ہوئی اُس خبر میں پا کستانی سیا ستدانوں کے نا م آگئے مقدمہ دائر ہوا مقدمے کا مدعی طاقتور تھا اس لئے 3مہینوں کے اندر فیصلہ سنا یا گیا اگر واقعی ’’ خبر ‘‘ کو غیر معتبر قرار دے کر اصغر خان کیس کو خا رج کیا گیا تو پانا مہ کیس والی ’’ خبر ‘‘ کا کیا حشر ہو گا ؟ خبر کو غیر معتبر ٹھہرانے والوں نے اس پر شاید غور ہی نہیں کیاکہ عدالت کے سامنے اس وقت بے شمار مقد مات زیر سماعت ہیں جنکی بنیاد خبر ہے میمو گیٹ کی مثال لے لیں یہ کیس خبر کی بنیاد پر بنا یا گیا تھا ایبٹ اباد حملے کا کیس اور اس کیس میں ڈاکٹر شکیل افریدی پر مقدمہ بھی خبر کی بنیاد پر بنا یا گیا تھا ’’ خبر‘ ‘ کو اڑادیا گیا تو عدا لتوں کے سامنے دائر مقدمات کی بڑی تعداد خا رج ہو جائیگی مختاراں مائی کیس میں مجرموں کو سزا ہوئی یہ مقدمہ بھی خبر کی بنیاد پر بنا تھا خبر کے بغیر مقدمہ کیسے بنتا ہے؟ واقعہ ہو تا ہے واقعے کی خبر آتی ہے اس بنیاد پر مقدمہ بنتا ہے ڈان لیکس اور سیرل المائدے کی سٹوری خبر ہی کے زمرے میں آتی ہے اصغر خان کیس کا انجام 25سال پہلے سب کو معلوم تھا خود ائیر مارشل (ر) اصغر خان کو معلوم تھا 25سال پہلے جس دن کیس عدا لت میں آیا ہم نے کہا اس کا کوئی انجام نہیں ہو گا جن لو گوں نے آئی جے آئی بنائی تھی وہ معمو لی لوگ نہیں تھے چنانچہ ہمارے 25سال اور فریق لو گوں کے کروڑوں روپے ضا ئع کرنے کے بعد کیس خا رج ہو رہا ہے اس پر جو تبصرے اور تجزیے آرہے ہیں ان تبصروں اور تجزیوں میں دو اہم پہلووں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ عدالت نے اصغر خان کیس کو 25سالوں تک لٹکا ئے رکھا پا نامہ کیس کا فیصلہ 4مہینوں میں کس بنیاد پر دیا ؟ میمو گیٹ کا فیصلہ 8سالوں تک کیو ں نہیں آیا؟ ایبٹ اباد حملے کا فیصلہ 7سالوں میں کیوں نہ آ سکا ؟ تقا بلی جا ئزہ لیا جا نا چا ہئیے تاکہ حقا ئق تک پہنچنے میں آسانی ہو ، ہماری یو نیور سٹیوں میں قا نون پڑ ھا یا جا تا ہے قا نون کے طا لب علموں کے لئے ان حقا ئق تک رسائی بہت ضروری ہے اکیسویں صدی میں ایسے حقا ئق تک رسائی عوام کے لئے بھی ضروری ہے میڈیا کے لئے بھی ضروری ہے پاکستا ن کے حا لات پر نظر رکھنے والی پوری دنیا کے لئے ضروری ہے اس کا دوسرا ضروری پہلو یہ ہے کہ عدالت کو کسی مقدمے کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کتنی مدت دی جائے ؟ کسی مقدمے کے فریق 25سال لگانے کے بعد یہ جان لیں کہ مقدمہ قابل سما عت ہی نہیں تھا 25سالوں کی اذیت ، مشقّت اور 25سالوں کے عدا لتی اخراجات کا ہر جانہ کس کے ذمے ہو گا ؟ مدعی کا مقدمہ غلط ہو تو خرچہ اس کے ذمے ڈالا جاتا ہے مدعا علیہ کیس کا دفاع کرنے میں نا کام ہو جائے تو خر چہ اس ذمے ڈا لا جاتا ہے اگر عدا لت 25سالوں کی مغز کھپائی اور ٹار چر کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو خر چہ یا ہر جا نہ کون بھرے گا؟ یا د رہے اس کیس پر خر چہ 60کروڑ روپے سے زیا دہ آیا ہے اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ عدالتی طریقہ کار کو درست کرنے کے لئے کون کون سے قوانین میں کس کس طرح کی ترامیم لانی چا ہئیں عدالتوں کا تقدس بحال کرنے کے لئے قوانین میں ترا میم کی اشد ضرورت ہے بینچ اور بار کو بھی اس پر غور کرنا چا ہئیے پارلیمنٹ کو بھی اس پر سوچنا چاہئیے چونکہ ایک مقدمے کو 25سال گزر نے کے بعد ’’ خبر کو غیر معتبر ‘‘ ٹھہرا کر اس کے اخراج کی درخواست کی گئی ہے اس لئے آل پاکستان نیوز پیپر ز سوسا ئٹی (APNS) کو بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نا چا ہئیے کہ حضور والا! اگر خبر کی بنیاد پر مقدمہ نہیں بن سکتا تو خبر کی بنیاد پر بننے والے تمام مقدمات خا رج کر دیجئے اس کی ابتدا یقیناًپا نا مہ کیس ، ڈان لیکس اورمیمو گیٹ سے کرنی ہو گی ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے دیتے ہیں
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔