دھڑکنوں کی زبان…. آج کا استاد کل کا شاگرد

آپ مجھ سے اتفاق کریں گے یا نہیں۔۔ میرے خیال میں آج کا شاگرد کل بھی موجود تھا اور کل کا استاد آج بھی موجود ہے ۔۔نہ احترام میں فرق آیا ہے ۔نہ محبت بدلی ہے ۔نہ وہ خواب چکنا چور ہو گئے ہیں جو استاد شاگرد کے لئے دیکھا کرتا تھا ۔۔نہ وہ منزلیں مٹی ہیں جن کی طرف شاگرد کی رہنمائی کی جاتی تھی اور نہ وہ مقام بدلا ہے جہان پہ استاد ہو اکرتا تھا ۔۔البتہ تقاضے بدلے ہیں ۔وقت کا دھارا بدلا ہے ۔۔انسان کی ضروریات بدلی ہیں ۔جغرافیہ وہی ہے۔صرف شکل بدلی ہے ۔خوراک پوشاک ،رہن سہن ،نشست وبرخواست ،رشتے ناطے ،تعلقات ، بدلی ہیں ۔ہر انسان دور کی پیداوار ہوتا ہے ۔اللہ دور کے تقاضوں کے مطابق انسان پیدا کرتا ہے ۔انسان دور کے ساتھ زندہ رہتا ہے اور اس کی زندگی اسی کے مطابق ہوتی ہے ۔۔آج بھی اصل مسئلہ یوں ہے کہ دور کے تقاضے بدلے ہیں ۔نہ استاد بدلا ہے نہ شاگرد بدلا ہے ۔۔نہ بیٹے کو کچھ ہوا ہے نہ باپ کے خلوص میں فرق آیا ہے ۔البتہ باپ آج کا باپ ہے اس سے کل والے باپ کے تقاضے نبھائے نہیں جاسکتے ۔۔بیٹا آج کا ہے اس کو کل والی سر گرمیوں کا ادراک نہیں ۔۔استاد آج کا ہے ۔اس کو بھی کل میں جھانکنا نہیں چاہیے ۔اور شاگرد سے یہ تقاضہ نہیں کرنی چاہیے کہ کل کو دھرائے ۔۔جو استاد مہذب ،پر خلوص، محنتی ،درد والا،اور باکردار ہے وہ کل بھی استاد تھا آج بھی اسی مقام پہ ہے ۔۔شاگرد اس کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔۔ آنکھوں میں بیٹھاتے ہیں۔یہ ان کا ماڈل ہے ۔۔محسن ہے ۔ان کے لئے کھلی کائنات ہے ۔جو شاگرد محنتی ،قابل، تابعدار، باکردار ،مستعد،پابند وقت ،خوش وپوش ،سچا کھرا اور پرعز م ہے تووہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔۔اس کو آج بھی استاد اپنے دل میں جگہ دیتا ہے ۔آنکھوں پہ بیٹھاتا ہے ۔لیکن اس صلاحیتوں کے دور میں شاگرد صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں ۔اہلیت کی تشنگی محسوس کرتے ہیں ۔چاہتے ہیں کہ ان کا استاد اپڈیٹ ہو ۔۔اس کو سائنس پہ عبور ہو ۔کمپیوٹر کا علم رکھتا ہو ۔۔انگریزی اردو سے واقف ہو ۔۔مذہب پڑھا ہو ۔۔میڈیا سے تعلق ہو ۔دنیا کے بارے میں معلومات ہوں ۔شاگرد کے کسی سوال کے جواب میں اٹک نہ جائے ۔۔شاگرد کی توقوقعات پہ پورا اترے ۔۔خوش گفتار خوش لباس ہو ۔دلکش شخصیت کا مالک ہو ۔مرنجان مرنج ہو ۔۔اخلاق و کردار کے اعلی مقام پہ ہو ۔شاگرد کے احساسات محسوس کر سکے ۔۔اس کی مدد کر سکے اس کی مجبوریاں دور کر سکے ۔اس کو اپنا سکے۔ اس کو اپنے دل میں جگہ دے سکے۔ اس کے دل میں جگہ بنا سکے ۔استاد کی شخصیت سے خوف اور نفرت کی کرنیں نہ پھوٹیں ۔وہ لالچ اور طمع سے پاک ہو ۔۔وہ استاد کل بھی تھا تو استاد تھا۔۔ آج بھی ہے تو استاد ہے۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ۔۔اگر کوئی شاگرد علم کا پیاسا ،کردار کا دھنی ،خوش اخلاق ،تابعدار ہے وہ کل بھی شاگرد تھا استاد کو اس پہ فخر تھا اور آج بھی ہے استاد کو اس پہ بجا طور پہ فخر ہے ۔وہی شاگر دجو کل استاد کے احترام میں سر جھکاتا تھا آج بھی سر جھکا رہا ہے ۔ آج شاگرد کے رویئے پر معترض لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دور کیا تقاضا کر رہا ہے ۔زمانے کے انداز بدلے ہیں نیا دور ہے ساز بدلے ہیں ۔۔آج ماں کی گود کی وہ تربیت بدلی ہے ۔گھر آنگن میں جو سبق پڑھایا جاتا تھا وہ آج کسی اور طرز سے پڑھایا جاتا ہے ۔۔معاشرہ ایک بے ہنگم شور میں بدل گیا ہے ۔کل کے چند افراد آج ہجوم میں بدل گئے ہیں ۔کل کا استاد معاشرے کا اکیلا تعلیم یافتہ تھا آج تعلیم یافتوں کی کھیپ ہے ۔۔آج اہلیت اور قابلیت کا مقابلہ ہے ۔اگر استاد تعلیمی لحاظ سے کمزور ہے تواس مقام پہ فائز نہیں ہے جس مقام پہ کل تھا ۔۔آج ہنر، اہلیت، قابلیت اور سر گرم عمل ہونے کا دور ہے ۔۔۔علم و عمل کا میدان وسیع ہو گیا ہے ۔پوری دنیا مٹھی میں آگئی ہے ۔دنیا والے نظروں کے سامنے ہیں ۔۔پھر کلچر کا یلغار ہے ۔۔تہذیبیںآپس میں ٹکرا رہی ہیں ۔۔دولت کی ریل پیل ہے ۔احساس مروت کا فقدان ہے ۔۔اگر تقاضا ہے صرف احترام کا ہے ۔۔شاید کل بچے کو کاپی قلم کی بھی ضرورت پڑھتی تھی ۔۔فیس ادا کرنا بھی اس کے لئے مسئلہ تھا ۔آج ایسا نہیں ہے ۔۔آج وہ صرف معیار چاہتا ہے ۔۔اس کا گھر تعلیم یافتوں سے بھرا پڑا ہے ۔۔اس کو بھی آج بہترین استاد کی تلاش ہے ۔۔جہان بہترین استاد ملے اس کا مقام کل کے استاد سے بھی بلند ہے ۔۔دھن دولت نے کردار ،اخلاق ،مروت اور شرافت کے گراف کو گرایا ہے ۔۔پھر برائے نام بلکہ بدنام آزادی کی خواہش اور مغرب کی اندھی تقلید بھی ایک وجہ ہے ۔اس لئے جو لوگ کل کے شاگرد کو بہت تابعدار اور آج کے شاگرد کو نابکار کہتے ہیں تو غلط کہتے ہیں اور جو کل کے استاد کو آج کے استاد کے مقابلے میں محنتی اور قابل کہتے ہیں وہ بخل سے کام لیتے ہیں ۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔