مرغی انڈے کا کاروبار

…….محمد شریف شکیب……

وفاقی حکومت کی طرف سے خیبر پختونخوا کے ایک لاکھ کسانوں، کاشت کاروں اور غریب خاندانوں کو ڈیری فارمنگ اور پولیٹری کے شعبے میں مالی امداد کی نوید سنائی گئی ہے۔ سکیم کے تحت ہر خاندان کو دس دیسی مرغیاں اور دو مرغے فراہم کئے جائیں گے۔ ان مرغیوں کی خوراک کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہوگی۔جس کے لئے محکمہ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کو فعال بنایاجارہا ہے۔ دیہاتیوں کو بھیڑ ، بکری اور گائے بھینس پالنے کے لئے بھی امداد دی جائے گی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے گوشت ، دودھ اور انڈوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے پندرہ ارب روپے مختص کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ جن میں سے چھ ارب تیرہ کروڑ روپے دودھ، لسی اور دیسی گھی کی پیداوار بڑھانے پر خرچ ہوں گے۔ گائے، بھیڑ اور بکریاں پالنے کے لئے اب تک سترہ ہزار چھوٹے کسانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ڈیری فارم بنانے کے لئے بیس لاکھ روپے تک کی امداد دی جائے گی۔ جانور پالنے کے لئے باڑ کی تعمیر،دودھ کی دکانوں کی سجاوٹ، صفائی ستھرائی، کولنگ ٹینک، دودھ گرم اور ٹھنڈا کرنے کے برتن بھی حکومت فراہم کرے گی۔ بچھڑے پالنے والوں کو ماہانہ آٹھ ہزار کی مالی امداد دی جائے گی۔ گوشت کی دکانوں کی بہتری پر ایک ارب دس کروڑ اور مرغیاں پالنے پر ایک ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ ان جانوروں اور مرغیوں کا علاج معالجہ بھی سرکار کے ذمے ہوگا۔ جب وزیراعظم نے مرغیوں کی پیداوار بڑھانے اور انڈوں کے کاروبار کی بات کی تھی تو میڈیا پر ان کا خوب مذاق اڑایاگیا۔ تنگ آکر وزیراعظم نے کہہ دیا کہ وہ آئندہ مرغی انڈے کی بات نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لئے اس سے بہتر منصوبہ ہوہی نہیں سکتا۔ مرغیوں اور مویشیوں کا کاروبار کم خرچ بالا نشین پیشہ ہے۔ جب مرغیاں بھی حکومت دے رہی ہے اور دانہ پانی کا خرچہ بھی سرکار کی طرف سے مل رہا ہے تو یہ دیہاتیوں کے لئے ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘کے مصداق ہے۔ دس مرغیاں روزانہ دس انڈے دیں گی تو غریب خاندان کو روزانہ پندرہ سو روپے گھر بیٹھے مل جائیں گے اور لوگوں کو خالص اور دیسی انڈے وافر مقدار میں دستیاب ہوں گے۔ اچھی نسل کی یہ مرغیاں سال میں دو مرتبہ چوزے نکال سکتی ہیں۔ اور ہر مرغی ایک درجن چوزے نکالے گی۔ اور چھ ماہ میں یہی چوزے مرغی بن کر انڈے دینے لگتی ہیں۔میں ایسی کئی دیہی خواتین کو جانتا ہوں جن کے گھر میں باہر سے ایک روپیہ بھی نہیں آتا ہے۔ مرغیاں، انڈے ، مویشی ، اون کی پٹی اور گھریلو مصنوعات بیچ کر انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ۔ان میں سے کوئی ڈاکٹراور کوئی انجینئر بن گیا۔ جو لوگ مرغی انڈوں کے کاروبار کا مذاق اڑاتے ہیں وہ دراصل عام آدمی کی سطح پر آکر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس لئے عام دیہاتیوں، چھوٹے کسانوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کی بہبود کی باتیں انہیں عجیب لگتی ہیں۔بڑے زمینداروں ، جاگیرداروں، خوانین، وڈیروں اور سرداروں کو کروڑوں اربوں کے زرعی قرضے، ان کے ٹیوب ویلوں کو مفت بجلی کی فراہمی سے مزارع، کسان اور مزدور کا معیار زندگی ہزار سالوں میں بھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے الگ بینک قائم کیاگیا ہے مگر وہاں سے صرف بااثر لوگ ہی قرضہ لے سکتے ہیں۔ اور پھر انہیں معاف بھی کراتے ہیں۔ دوچار کینال زمین کا مالک کبھی قرضہ نہیں لے پاتا۔ اگر لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا قرضہ خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو وہ معاف نہیں ہوسکتا ۔ 2015کے
سیلاب متاثرین کو زرعی قرضے معاف کرنے کا سابق وزیراعظم نے چترال آکر خود اعلان کیا تھا۔ سال دو سال تک زرعی بینک والے نوٹی فیکیشن نہ ملنے کا بہانہ بناتے رہے۔ بعد ازاں غریبوں سے زرعی قرضہ دو سال کے سود سمیت وصول کرنے لگے۔مال مویشیوں اور مرغیوں کے کاروبار کو فروغ دینے سے نہ صرف دیہی علاقوں کے لاکھوں غر یب لوگوں کی مالی حالت بہتر ہوگی۔ بلکہ لوگوں کا سستا اور خالص گوشت، دودھ، گھی ، انڈے اور پولیٹری کی صاف مصنوعات بھی دستیاب ہوگی۔ جس کے صحت عامہ پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو مال مویشیوں اور مرغیوں کے ساتھ ماہی پروری کو بھی عوامی سطح پر فروغ دینے کے لئے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔