مکتوبِ چترال….گولین گول کی بجلی

تازہ ترین اعلان یہ ہے کہ آج مورخہ23جنوری سے گولین 106میگاواٹ بجلی گھرکی بجلی چترال ٹاون اور ملحقہ دیہات کو ملے گی۔اس کے بعدبلاتعطل بجلی ملتی رہے گی۔بجلی کے نام پر اور گولین کے نام پراتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ لوگوں کو یقین نہیں آتا اس اعلان پر کوئی باور نہیں کرتا۔کسی زمانے میں ایک چرواہا ہر روز لوگوں کو ڈراتا تھا کہ ’’شیر آیا‘‘پھر ایک دن ایسا ہوا کہ سچ مچ شیر آیا۔چرواہے نے آواز دی کہ’’شیر آیا‘‘ لوگوں نے کہا جھوٹ بولتا ہے مگر شیر آیا اور اپنا کام کرگیا۔گولین کی بجلی کا ایسا ہی مسئلہ ہے۔1987میں اس بجلی گھر کی منظوری ہوئی تھی۔31سال بعد بلب روشن ہونے کی خوشخبری آگئی ہے۔بجلی کے آنے سے چترال ٹاون کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائیگی۔کم وولٹیج سے نجات مل جائیگی۔گھروں کو گرم کرنے اور کھانا پکانے کے لئے بجلی مہیا ہونے کے بعد لکڑی جلانے کی ضرورت میں کمی آئے گی۔جنگلات کو محفوظ کرنے میں مدد ملے گی۔شہزادہ افتخار الدین ایم این اے کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے4سالوں میں لواری ٹنل کے26ارب اخراجات میں سے23ارب روپے فراہم کئے۔اس طرح گولین گول ہائیڈروپاؤر پراجیکٹ پر سب سے زیادہ رقم18ارب روپے نواز شریف کے دور میں لگائے گئے۔منصوبہ بندی کمیشن کے سابق وزیر احسن اقبال اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ ایم این اے شہزادہ افتخار الدین توانائی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے دن رات فنڈ ریلیز کرانے اور کام کی رفتار کو تیز کرانے میں مگن رہے۔دونوں بڑے منصوبے ان کے دور میں مکمل ہوئے۔سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فروری کے مہینے میں چترال کا دورہ کرکے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کرینگے۔اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔بجلی کے حوالے سے ایک اہم مطالبہ 2002سے دہرایا جارہا ہے مطالبہ یہ ہے کہ ملاکنڈ اور گلگت کی طرح چترال کے صارفین کو ایک روپیہ یونٹ کے قیمت پر بجلی دی جائے۔درگئی میں اس حوالے سے باقاعدہ معاہدے کے کاغذات موجود ہیں۔گلگت میں بھی اس کی مثال دی جارہی ہے۔یہ جائز اور مناسب مطالبہ ہے۔اگر وزیراعظم کے دورے سے پہلے یہ مطالبہ ان کی نوٹس میں لایا گیا تو اس پر ضرور غورہوگا۔اس کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے چترال کی ممتاز کاروباری اور سماجی شخصیت شہزادہ سراج الملک نے کہا ہے کہ 24گھنٹوں میں5یا6گھنٹوں کے لئے 70واٹ یا80واٹ کی مدھم بجلی آتی تھی۔اُس کا نرخ 100یونٹ کے 12روپے،200یونٹ کے بعد 18روپے فی یونٹ تھا۔لوگوں کو گھر کے چار مہینوں کا بل ہزار بارہ سوروپے آتا تھا۔اب اگر سچ مچ 220واٹ بجلی آگئی تو ہیٹر،فریج،استری،گیزر سب استعمال ہونگے ہرگھر کو6ہزار روپے سے لیکر20ہزارروپے تک کا بل آئیگا۔جسے چترال کے غریب عوام برداشت نہیں کرسکینگے۔ہمارے سامنے ملاکنڈ درگئی کی مثال موجود ہے۔اس مثال کو سامنے رکھ کر چترال کے لئے ایک روپیہ فی یونٹ کے فلیٹ ریٹ کا باقاعدہ معاہدہ ہوسکتا ہے اور یہ وقت کا تقاضا ہے۔چترال کے سماجی ار سیاسی حلقوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔