نیا پاکستان میں کچھ نیا ہو 

……..تحریر: اے۔ایم۔خان ……
 
سال 2012ء کو انٹرویو کی تیاری کیلئے پشاورصدر میں مجھے چند دن ماہ جنوری اور فروری میں گزارنے کا موقع ملا۔ معمول کے مطابق، روزانہ صبح کے وقت ہوٹل سے اخبار لینے کیلئے نیوز اسٹال  جاتا اور اخبار لے کر وہاں سے واپس ناشتے کیلئے آجاتا تھا۔ میں تقریباً ایک ماہ سےزیادہ عرصہ پشاور کے صدر بازار میں گزاردی جس میں بہت سے چیزوں اور لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔
اِن دِنوں اکثردیکھنے میں آیا، چھوٹے بچے ملتے اُن کے پاس بھیجنے کیلئے  چیونگم ہوتے تھے یا اور کوئی چیز۔ بعض بچے جوتے پالش کرنے کا مطالبہ کرتے ،اور چند بچے بھیک بھی مانگتے تھے۔
اب بازار میں جو بھی  مانگنے والا ہوتا ہے یہ تعیں کرنا سب سے بڑا مسلہ ہوتا ہے کہ وہ جو اللہ کے نام پر کچھ مانگنے والا واقعی حقدارہے کہ نہیں؟ پاکستان کے کسی بھی گلی کوچے میں مانگنے والا وہ فرد اُن 4 کروڑ لوگوں میں شامل تو نہیں جو رات کو کھانا کھائے بغیر سو جاتا ہے۔ اوریہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جس بچے کو آپ نے بھیک نہ دیا ہو اور وہ اُن 140 بچوں میں شامل تو نہیں تھا جو بھوک کی وجہ سےمرجاتے ہیں!
صدر بازارکا مین چوک جس میں ایک معذورعورت اورایک لڑکا روزانہ بھیک مانگنے والوں میں ہوتے تھے اور شام کے وقت اُن کو کوئی لے جاتے تھے اُنہیں  کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ کل،منگل کے دن، میرا انٹرویو ہونے والا تھا ،شام کے کھانے کے بعد صدر روڈ سے پار ہوٹل میں چائے پینے کیلئے چلاگیا۔ اُس دن،گوکہ میری سوچ اور خیال کل والےانٹرویو پرفوکس تھی،ایک دلچسپ واقعہ دیکھنے کوملا۔ صدربازار میں بھیک مانگنےوالا وہ لڑکا ساتھ ہوٹل کی طرف آیا۔ وہ چل نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس کے جسم کا نچلا حصہ مکمل طور پرناکارہ تھی۔جیسےمیرے پاس سے گزرا،کل میرا انٹرویو تھا، تومیں نے اللہ کے نام پراُسے کچھ دے دی۔ اب میں اُسے دیکھ رہا تھا،کہ اب وہ کہان جا رہاہےاور کیا کرے گا۔ساتھ کھانےکے ہوٹل کےسامنےکرسی میں نہیں بیٹھا اور بہت مشکل سے چارپائی میں جاکر بیٹھا۔میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہ شاید اِسے ہوٹل والا کچھ روکھا سوکھا کھلا دے یا یہ خود معمولی سا کچھ منگوا لے گا۔ بہرحال ہوٹل کا ویٹر اُس کے پاس آیا اور اُس نے اُسے کچھ کہہ دیا۔ اُسکی حالت دیکھ کر مجھے بہت ترس آیا اور شکُر بھی ادا کر دی۔ چارپائی میں خود کو سنبھالنے کے بعد اُس بھیکاری نےاپنے اُن گندہ کپڑوں اور کوٹ کے پوکٹس سے روپے نکالنا شروغ کیا تومیں محوہوکر اُسے دیکھتا رہا۔ اُس نےایک پوکٹس سے سو روپے کا ایک دستہ نکالا،دوسرے سے پچاس روپے کا، بیس روپے اوردس روپےکے نوٹس اتنے زیادہ تھےاُس کے سامنےخالی جہگے میں بھر گئے۔ لوہے کے سکے بے حساب تھے جسے ایک کپڑے کے تھیلےمیں ڈال دی۔ سچ بتا رہا ہوں میں نےجو اُسے اللہ کے نام پردی تھی اِس پر بھی ایک بار سوچا۔
بہرحال اتنے میں ویٹراُس کا کھانا لےآیا۔ اُس نےمچھلی آرڈر کیا تھا۔ کھانا کھانے کے چند منٹ بعد ایک مہران کارآگئی وہ رینگتا ہوا ادھر چلا گیا ۔ نوجوان سا ایک لڑکا ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اُترا،اور فرنٹ سیٹ سے ایک عورت،دونوں نے اُسے پکڑ کر گاڑی کے پیچھے سیٹ میں بیٹھادیا اور ساتھ چلے گئے۔
اب ایک بات مجھے سمجھ آگئی تھی کہ جو اللہ کے نام پر مانگنے کا حقدار ہے اُسے لوگ بھی اللہ کے نام پر دیتے ہیں جو کچھ اُسے ملتا ہے وہ اپنے ضروریات پر خرچ کرتا ہے یا نہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اُس کے گھر والے اُسکی معذوری سے فائدہ اُٹھاکر گھر کا پورا خرچہ اور ذاتی شاہ خرچی اُس کی بھیگ سے بٹورتی ہیں یا یہ کوئی نیٹ ورک کا کارندہ ہےجسے ایک مافیا استعمال کرتی ہے؟ اور یہ اب قوی ہے کہ معذور بھیکاری بھی پیشہ وربھیکاری کا حلیہ بن چُکی ہے۔ جو شخص غریب کو کھانا کھلانا چاہتا ہےاورضرورت مند کو خیرات یا اللہ کے نام پر کچھ دینا چاہتا ہےاُسے یہ پتا نہیں چلتا کہ کون خیرات کا حقدار ہے اور کون پیشہ ورہے،اور کسطرح ضرورت مند کا شناس ہو سکے؟
ملک میں بھوکا مرجانےکا ایک وجہ یہ بھی ہے جس میں حقدارمدد کی اپیل کرتا ہے وہ بھی لوگوں کو مصنوعی حیلےمیں نظرآجاتا ہےاوراُس پربھروسہ نہیں ہوتا اور وہ بھوکا سو جاتا ہے۔
ریاست پاکستان میں 24.3فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ایک اوراندازے کے مطابق ملک میں 10 افراد میں سے 6 لوگ خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ ہیں۔
ایک اور اندازے کے مطابق پاکستان کے لوگ خدمت خلق اورغریب کی بہبود پرسب سےزیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ضرورت مند اورغریب کےفلاح وبہبود پر افراداورادارےعطیات اوررقم جمع کرتے ہیں اورسب سے زیادہ پیشہ ور بھیکاریوں (کا مافیا) کا نیٹ ورک جمع کرتی ہےجواُن چند لوگوں کے پاس جاتی ہے جو معذور ولاچار کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم اورملک میں غریب طبقے کیلئے مستقل بنیادوں پر کام کرنے کو پہلے اور حالیہ آنے والے بیانات اوراعلانات کے مطابق موجودہ حکومت اپنا اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔اگرحکومت ملک میں غریب اورضرورت مند کو رہنے کیلئے گھراورکھانے کیلئےخوراک کا بندوبست کرتی ہے تو یہ ملک میں بہت بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے۔اوراِسے فلاحی کاموں میں سب سےاہم کام تصورکیا جائے گا۔غریب اور نادار کے نام پرجو لوگ اورادارے ایک بڑی رقم جمع کرتے ہیں اورجولوگ معذور افراد کو بھیگ مانگنے کیلئے اپنے نیٹ ورک میں استعمال کرتے ہیں اوررقم جمع کرتے ہیں حکومت صرف یہ رقم ہی جمع کرتی ہے توصرف اِسی رقم سے ہی ایک بڑی تعداد کو کھلایا اور پلایا جاسکتا ہےاور یہ بدترین کاروبار بھی بند ہوسکتا ہے۔
حکومت دارالامان یا کسی اوراِدارے میں معذور افراد کو رکھ کراُن کاعلاج اور اُن کے کھانے پینے کا بندوبست کر سکتا ہےاوراُن کے ذریعے ہونے والے مافیا کا کاروباراورنیٹ ورک ختم کرسکتا ہے۔
ریاست پاکستان میں چند ایسے اضلاع یا علاقےشامل ہیں جہان مقامی لوگ بھیک نہیں مانگتے اِس میں ضلع چترال بھی شامل ہے۔اوراگریہاں کوئی ملتا ہے وہ پیشہ ورنہیں ہوتا آج مانگ لی اُسکی ضرورت ہوگئی تو چلا جاتا ہے۔گرمیوں اوربہارکے موسم میں پیشہ ور بھیکاریون کےکئی ایک ٹولے چترال بازار اور گاوں گاوں پھرتےنظرآتے ہیں اور یہاں بھی اپنے حصے کا بٹور کر چلے جاتے ہیں۔غریب اور معذور کے فلاح وبہبود کیلئے جو اقدامات ہو اُنہیں اِداراتی چھتری کے نیچے لایا جائےتو خاطرخواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔