چترال ٹاون، بجلی اور گولین

بزم فاران
تحریر: محمد نایاب فارانی

آج کے دور میں ہر کسی کے پاس کسی  بھی چیز سے متعلق  اتنی معلومات ضرور ہوتی ہیں کہ وہ ان کو لیکر ببانگ دہل سوشل میڈیا (خصوصاً  فیس بک)  پر دھمکا چوڑی مچا لیتا ہے۔ انہی میں سے آج کے دور میں چترال میں ناپید ہوتی ہوئی بجلی ہے۔ دو سال پہلے چترال میں آئیے ہوئے سیلابوں نے جہاں دوسرے املاک کو نقصان پہنچایا ، وہاں بجلی پیدا کرنے والے اکلوتے بجلی گھروں کو بھی ساتھ بہا کر لے گیا۔ چترال ٹاون ہمیشہ سے بجلی کے “لوڈشیڈنگ” کو شکار رہا رہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹاون میں بجلی نام کی کوئی شے تو ہے۔ وہ ایک گھنٹہ آتی ہے یا 10 گھنٹے وہ الگ معما ہے۔

چترال ٹاون کے اس درینہ مسئلے کو حل کرنے کے عرض سے بجلی گھر بنانے پر جب غور ہوا تو مختلف اداروں  اور شخصیات نے یہ سہرا  اپنے سر سجانے کی کوشش کی۔ کسی نے چترال گول سے بجلی بنانے کا خواب دیکھا تو کسی نے سنگور کے بجلی گھر کو “اپ گریڈ” کرنے کی کوشش اور دعوے کئے۔ چترال کے ایک غیر منافع بخش ادارے نے ایک احسن قدم یہ اٹھایا کہ وہ “نو” مہینوں کے قلیل  (ایک حساب سے طویل) مدت میں اس  کار خیر کو انجام دے گا اور وہ  بھی چترال ٹاون سے کم از کم 45 کلو میٹر دور وادی گولین میں بہنے والی ندی کو استعمال کر کے۔ مذکورہ ادارے کو شاید یہ خیال اس لئے آیا ہو گا، کہ اسی وادی سے چترال ٹاون کا ایک اور مسئلہ پائپ لائن کے ذریعے حل ہوا تھا۔ یہ خیال آنا تھا  اس کی تشہیر کی گئی اور پیشگی کسی ضروری کاروائی کے کام کا آغاز کیا گیا۔ اور وہ نو مہینوں  کا وعدہ ، وعدہ ہی رہا۔ مذکورہ ادارے کو شاید یہ خیال تھا کہ نو مہینہ کافی عرصہ ہوتا ہے ۔ اور دفتری حساب سے اتنے مدت کے کاموں کو طویل مدت کے پروجیکٹ کہا جاتا ہے۔

Image may contain: one or more people

ٹاون کی شاید قسمت ہی ایسی تھی کہ وہ نو مہینے سال، پھر ڈیڑھ سال اور دو سال سے بھی اوپر ہو گئے  لیکن بجلی ابھی تک کوسوں دور کے مصداق دور ہی ہے۔ اس میں کئی مسائل ایسے ہیں جن کو حل کئے بغیر چترال  ٹاون تک اس بجلی کے ترسیل کو یقینی بنانا  ممکن نظر نہیں آ رہا ہے ۔ ان میں سر فہرست بجلی گھر کی کارکردگی اور سیاسی مداخلت ہے۔ دوسرے نمبر پر کوہ کے عوام جو کہ  بجلی کے اصل حقدار ہیں ان کو اعتماد میں لینا وقت کا ا ہم ترین تقاضا ہے۔ کیونکہ علاقہ کوہ کے عوام گذشتہ دو سالوں سے بجلی کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ ان کے گھروں میں واشنگ مشین ، فریج، فریزر اور استریاں پڑے پڑے تقریباً خراب ہوچکے ہیں ۔ پیڈو کی طرف سے قرعہ اندازی میں دئیے گئے سولر بھی کوہ کے عوام کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ تیسرا مسئلہ ترسیلی لائن کا ہے جو کہ پیڈو(سابقہ شیڈو)  کمپنی اور واپڈا کے درمیان ایک انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ معاون ادارے کے سربراہان نے کئی دفعہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اس  بجلی گھر سے پیدا ہونے والے بجلی کو واپڈا کمپنی  دیکھ بھال کرے گی جبکہ پیڈو اس بات پر بضد ہے کہ اگر ان کا ترسیلی لائن استعمال کیا جا رہا ہے تو اس بجلی گھر کا انتظام و انصرام بھی ان کے ہاتھ میں دیا جائے ۔ سوشل میڈیا میں دئیے گئے ہمارے ایک دوست کے اپ ڈیٹ کے مطابق چینی انجنیئر نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر جنوری کے 12 تاریخ تک اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو وہ بھی اپنے واپسی کا سفر شروع کریں گے۔

تا دم تحریر اس بجلی گھر سے متعلق  تفصیلات کے مطابق پاور ہاؤس میں  کام تقریباً مکمل ہے ترسیلی لائن  مشیلیک تک پہنچ چکے ہیں ۔  اللہ کرے کہ جلد یہ تصفیہ طلب مسائل حل ہو جائیں اور “مشیلیکا یور ویسیک” (مشیلیک میں سورج کے انتظار ) نہ ہو جائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔