چترال کا جشنِ بہاراں 

………….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ……….
محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا نے ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے جشن قاق لشٹ کو کیلینڈر ایونٹ بنا دیا ہے کیونکہ چترال کے جشن بہاراں کو صحت افزاء ، خوبصورت اور منفرد مقام کے نام پر جشنِ قاقلشٹ کا نام دیا گیا ہے۔ گذشتہ 15سالوں سے یہ جشن بلا ناغہ منایا جاتا ہے اس سال 12اپریل سے 15اپریل تک چار روزہ جشن منایا گیا۔ 12اپریل کو دو منفرد کام ہوئے، جشن قاقلشٹ کے افتتاح کے لئے کسی بڑے سیاستدان ، جرنیل ،جج، سفیر یا بیوروکریٹ کی جگہ چترال کے دو درویش اور سینئر فنکاروں کو بلایا گیا، عبد الغنی خان المعروف دول ماما کی عمر 62سال ہے۔ جوانی میں مشہور گلوکار اور ملنگ تھے اب مجذوب اور نعت خواں کی شہرت رکھتے ہیں۔ فی البدیہہ نظمیں گا کر حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ میر ولی المعروف کو راغو ماسٹر 84سال کی عمر میں جوانوں کی طرح گلوکاری کرتے ہیں سیتار بجاتے ہیں
اور قدیم گیتوں کو گاکر داد سمیٹتے ہیں ۔ ضلعی انتظامیہ نے ان دو سینئر فنکاروں کے ہاتھوں فیتہ کاٹ کر پرچم لہرا کر جشن کا افتتاح کیا جشن کا ایک ایونٹ راک کلائمبنگ ( کوہ پیمائی ) تھا۔ ڈپٹی کمشنر ارشاد سو ڈھر نے جوان کھلاڑیوں کے ہمراہ رسیوں کی مدد سے 600فٹ اونچی چٹانوں پر کوہ پیمائی میں حصہ لیکر ریکارڈ قائم کیا۔ لاڑکانہ کے صحراؤں سے آنے والا افیسر چترال کے پہاڑوں پر پلنے والے نوجوانوں کے برابر کوہ پیما ثابت ہوا۔ گویا آج بھی ؂
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی
قاق لشٹ ضلع چترال کی تین تحصیلوں کے وسط میں واقع 12کلومیٹر طویل اور 5کلومیٹر چوڑا میدان ہے جو سطح سمندر سے 8000فٹ کی بلندی پر سطح مرتفع کی صورت میں لق و دق صحرا ہے۔ اردگرد اونچی چٹانیں ہیں اور دونوں اطراف میں دریا بہتے ہیں۔ بیچ میں یہ سطح مرتفع اپریل کے مہینے میں دعوتِ نظا رہ دیتا ہے ۔کشمیر کے ایسے ہی نظارے کو علامہ اقبال نے ایک مصرعے میں سموتے ہوئے کہا تھا ؂
’’ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن‘‘
جشن قاق لشٹ کی روایتی حیثیت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ گیارھویں صدی میں سو مالک یہ جشن خندن لشٹ کے پولو گراؤنڈ میں مناتا تھاجو قاق لشٹ کے دامن میں واقع ہے اور جنوب کی طرف سرسبز میدان ہے۔ رئیس حکمرانوں کے دور میں بھی یہ جشن سولویں صدی تک خندن لشٹ میں منایا جاتا رہا۔ کٹور خاندان کی حکومت میں شمال کی طرف شوڑیری کے مقام پر جشن منایا جاتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد الگ الگ جگہوں پر مختلف دنوں میں الگ الگ گروپوں کی طرف سے جشن منایا جانے لگا۔ 2003ء میں اُس وقت کی انتظامیہ نے ایک بار پھر قدیم روایات کو زندہ کر کے ایک ہی مقام پر چار روزہ جشنِ بہاراں کا آغاز کیا۔ اس کے لئے قاق لشٹ کے وسط میں سب سے بڑے میدان کا انتخاب کیا گیا۔ قاق لشٹ کا نام دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ قاق کے معنی ہیں خشک اور لشٹ کے معنی ہیں میدان۔ گویا یہ خشک میدان ہے جس کا رقبہ 72000کنال ہے۔ مارچ اور اپریل میں یہاں سبزہ اُگتا ہے۔ بارشیں ہوتی ہیں تو جون تک سبزہ رہتا ہے۔ خشک سالی میں اپریل کے بعد سبزہ ختم ہوجاتا ہے۔ ڈی آئی خان اور جنوبی پنجاب کے لوگ ہر سال یہاں کیمپ لگا کر باز پکڑتے ہیں۔ کیونکہ وسطی ایشیا سے بازوں کی نایاب نسل یہاں آتی ہے۔ بٹیروں ، کبوتروں اور چکوروں کا شکار ان بازوں کو یہاں تک کھینچ لاتی ہے۔ اس مقام پر 61انچ سے لیکر 75انچ تک پروں والے باز پکڑے گئے ہیں۔ جشن قاق لشٹ کی رنگینیوں میں روایتی کھیل، ادبی و ثقافتی پروگرام اور جدید کھیل سب شامل ہیں۔ چترال کے قدیم کھیلوں میں فری سٹائل پولو، نشانہ بازی، رسہ کشی ، پہلوانی اور باز پروری کے مقابلے یہاں پر روایتی طریقوں سے ہوتے ہیں۔ جدید کھیلوں میں کرکٹ ، فٹ بال ، والی بال، ٹینس ، پیرا گلائڈنگ، راک کلائمبنگ اور دیگر کھیلوں کے دلچسپ مقابلے ہوتے ہیں۔راتوں کو کیمپ فائر کے نام سے محفل مشاعرہ اور محفل موسیقی ہوتی ہے۔ گویا جنگل میں منگل کاسماں ہوتا ہے۔ جشن قاق لشٹ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا انتظام مقامی کمیٹی کرتی ہے۔ کمیٹی میں سلطان روم، حیدر ولی،پرنس سلطان الملک ، سردار حسین ایم پی اے اور دوسرے سیاسی و سماجی کارکن فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سال تحصیل کونسل کے نائب ناظم فخر الدین اور تحصیل کونسل کے ممبر سردار حکیم نے کمیٹی کی معاونت میں اہم کردار ادا کیا۔ قاق لشٹ میں 4دنوں کے لئے خیمہ بستی آبادکرنا، 20ہزار لوگوں کے لئے پانی کا انتظام اور خوراک کا بندوبست بہت بڑا چیلنچ ہے۔ جشن کے اختتام پر ماحول کی بحالی اور کوڑا کرکٹ کی صفائی بھی اِن کاموں کا حصہ ہے۔ کمشنر ملاکنڈ ظہیر الا سلام نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ سالوں کے لئے جشن قاق لشٹ کو مزید جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گااور اس میں ملکی مہمانوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سیاحوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔