کڑے احتساب کے عزم کا اعادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شریف شکیب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جاوید اقبال نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جس نے کرپشن کی ہے اسے احتساب کے عمل سے گذرنا پڑے گا۔ پاکستان 95ارب ڈالر کامقروض ہے۔ نیب اور ہر پاکستانی کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ قوم کے نام پر لیا گیا قرضہ کہاں خرچ ہوا ہے۔اگر ہم نے یہ پوچھا تو کونسا گناہ کیا؟۔ بادشاہت کا دور بیت گیا۔ اب جمہوریت ہے اس میں ہر حکومت کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا۔ یوم انسداد بدعنوانی کی مناسبت سے ایوان صدر میں تقریب سے خطاب میں چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ بیوروکریسی نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اس میں نقص پیدا ہو۔ تو پورا ریاستی ڈھانچہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس کل موٹر سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی آج وہ دوبئی میں پلازوں کے مالک کیسے بن گئے؟۔ چیئرمین نیب کے موقف کی ہر پاکستانی تائید کرتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس نے جمہوری نظام ، ریاستی ڈھانچے اورقومی اداروں کو کھوکھلا کردیا ہے۔کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں رشوت اور سفارش کے بغیر جائز کام وقت پر ہوتا ہو۔ مالی، خاکروب اور چپڑاسی سے لے کر گریڈ سترہ ، اٹھارہ تک کی اسامیاں بھی ریوڑیوں کی طرح فروخت ہوتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں نااہل افراد قومی اداروں میں بھرتی ہوئے ہیں۔ تعلیم، صحت اور قومی تعمیر کے دیگر محکموں کی کارکردگی روزافزوں خراب ہونے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی بلاامتیاز احتساب اور کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرتی رہی لیکن جب اقتدار ملا تو کرپشن اور بے قاعدگیوں پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی بلکہ بدعنوانیوں کو مزید فروغ دیا۔ جب اوپر کی سطح پر چوربازاری کا راج ہو۔ تو یہ مرض کینسر کی طرح پورے معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے۔ جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اتنی کرپشن کرتا ہے۔ کیونکہ انہیں پکڑے جانے یا سزا دیئے جانے کا خوف نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سکول میں سالانہ تقریب ہورہی تھی ۔پرنسپل نے ایک فوٹو گرافر کو بلاکر ہر کلاس کی گروپ تصویر بنانے کے ریٹ پوچھے۔ فوٹو گرافر کے ساتھ پچاس روپے میں بات طے ہوگئی۔ پرنسپل نے ٹیچر کو بلا کر بچوں سے سو سو روپے منگوانے کا کہا۔ ٹیچر نے بچوں کو بتایا کہ سالانہ تقریب میں فوٹو سیشن ہوگا۔ آپ لوگ گھر سے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے لے آئیں۔ بچہ گھر جاتے ہی والدہ سے واقعے کا ذکر کیا اور کہا کہ ٹیچر نے دو سو روپے لانے کا کہا ہے۔ شام کو بچوں کا والد ڈیوٹی سے گھر آیا تو بیوی نے بچوں کی فرمائش کے بارے میں بتایا کہ صبح بچے کو ڈھائی سو روپے دینے ہیں۔ پرنسپل کے دفتر میں طے پانے والا پچاس روپے کا ریٹ مختلف مقامات پر کمیشن کے ساتھ ڈھائی سو روپے تک پہنچ گیا۔یہی ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔ ہم ہر وہ کام کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔ رشوت ہم لیتے ہیں۔ جھوٹ ہم بولتے ہیں ،خیانت ہم کرتے ہیں۔ اقرباپروری ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ نمود و نمائش ہم کرتے ہیں۔سودی کاروبار ہم کرتے ہیں۔ غیبت ہماری فطرت بن چکی ہے۔ دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر آگے نکلنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ سنی سنائی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہمارا وطیرہ ہے۔ صفائی کا بس اتنا ہی خیال رکھتے ہیں کہ گندگی اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نکال کر گلی میں پھینک دیتے ہیں ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جو شخص جتنا بڑا چور ہے ۔وہ دوسروں کو نیک بننے کی تلقین کرتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کی تمام سیاسی پارٹیاں حامی ہیں لیکن وہ چاہتے
ہیں کہ پہلے دوسروں کا احتساب ہوجائے۔ چیئرمین نیب کی باتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں ۔انہیں اپنا کام بلاخوف و خطر جاری رکھنا چاہئے۔ لیکن یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ کسی کی پگڑی اچھالنے سے گریز کیا جائے۔ نیب اپنے طور پر پوری چھان بین کرے۔ کسی شخص نے ایک ہزار کی کرپشن کی ہو۔یا ایک کروڑ کی۔ پورے ثبوت جمع کرکے کیس کو منظر عام پر لائے تاکہ قوم کے مجرموں کو فرار کا موقع نہ مل سکے۔ اگر کرپشن پر پچاس فیصد بھی قابو پایا گیا تو یہ قومی احتساب بیورو کی اہم کامیابی ہوگی۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔