’ہم نے افغانستان میں امن کے لیے سب سے زیادہ اقدامات کیے ہیں‘پاک آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ دہشتگردی کا مقابلہ کیا اور ساتھ ساتھ علاقائی امن میں بھی حصہ ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے کسی بھی اور ملک سے زیادہ اقدامات کیے ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے جنرل باجوہ کے حوالے سے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ’دنیا کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان نے عسکری، معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی زیادہ قیمت چکائی ہے اور ہم افغانستان میں امن کے لیے کوشاں رہیں گے تاہم پاکستان کا وقار اور پاکستان کا تحفظ ہمیشہ اولین ترجیح رہے گا۔‘

یاد رہے کہ اس سے قبل منگل کے روز پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر امریکی ناظم الامور کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور پال جونز کو طلب کیا گیا اور صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے بلاجواز اور بے بنیاد الزامات پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

 

بیان کے مطابق سیکریٹری خارجہ نے امریکی صدر کے تازہ ٹویٹس اور بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف اس قسم کی بےبنیاد بیان بازی بالکل قابل قبول نہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ دو دن کے دوران پاکستان کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو اور ٹویٹس میں متعدد الزام تراشیاں کی ہیں۔

پیر کو اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اب اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ پیسے لے لیتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں۔ بن لادن اس کی بڑی مثال ہے اور افغانستان ایک اور۔ وہ ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جو امریکہ سے لیتے تو ہیں لیکن جواب میں دیتے کچھ نہیں۔ یہ اب ختم ہو رہا ہے۔‘

اس سے قبل اتوار کو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔

دفتر خارجہ

انھوں نے کہا: ‘پاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ (اسامہ بن لادن) فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں۔ اور ہم انھیں 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہے ہیں۔ ہم اب یہ امداد نہیں دے رہے۔ میں نے یہ بند کر دی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے۔’

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بیان کو مسترد کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی ناظم الامور کو یاد دہانی کرائی کہ پاکستانی انٹیلیجنس تعاون ہی سے اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔

سیکریٹری خارجہ نے امریکی ناظم الامور کو بتایا کہ کسی اور ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنی بھاری قیمت ادا نہیں کی جتنی کہ پاکستان نے کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی قیادت نے کئی مواقع پر القاعدہ کی قیادت کے قلع قمع اور خطے سے دہشت گردی کے خطرے کے خاتمے کے سلسلے میں پاکستان کے تعاون کا اعتراف کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ القاعدہ کے کئی اہم ترین رہنما پاکستان کے تعاون سے ہی ہلاک یا گرفتار ہوئے۔

ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو امریکہ سے لیتے تو ہیں لیکن جواب میں دیتے کچھ نہیں

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں عالمی برادری کی کوششوں کی حمایت جاری رکھی ہے اور امریکہ کی جانب سے افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کی کوششوں کے اعلان کے بعد امریکہ اور پاکستان خطے کی دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اس طویل عرصے سے جاری تنازعے کے خاتمے کے لیے کوشاں تھے۔

پاکستانی دفترِ حارجہ کا کہنا ہے کہ ایسے نازک موڑ پر تاریخ کے ایک بند باب کے بارے میں بےبنیاد الزامات اس اہم تعاون کے لیے نقصان دن ثابت ہو سکتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان کا ردعمل

خیال رہے کہ دفترِ خارجہ کے احتجاج سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 75,000 افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر کی ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ اس جنگ نے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے کہ پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے امریکی صدر سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے شدت پسندی کی جنگ میں اتنی قربانیاں دی ہوں۔

 

بشکریہ:بی بی سی اردو

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔