اصلاحی و ترقیاتی کاموں کا تسلسل وقت کی ضرورت !
چترال ایک خوبصورت اور پر امن ضلع ہے جہاں کے باشندے نہایت مہذب اور اعلی اقدار کے مالک ہیں ـ یہ ضلع صوبہ خیبر پختونخواہ کے باقی ضلعوں کے مقابلے میں سب سے بڑا ضلع ہے جس کا رقبہ 14750 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ـ اس کی آبادی لگ بگ ساڑھے 4 کروڑ نفوس پر مشثمل ہے ـ یہ ضلع پہاڑی سلسلہ کوہ ہندوکش کے ساتھ تریچ میر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے یہ ضلع پہاڑی ہونے کی وجہ سے شہر سے کافی دور دراز ہے ـ پشاور سے ملاکنڈ پھر دیر پھر اسی طرح طویل مسافت کے بعد بالآخر ( لواری ٹاپ جو کہ تمام چترالیوں کےلیے کسی درد سر سے کام نہیں ) بھی اسی راستے میں آتا ہے ـ لواری ٹنل بننے سے قبل تقریبا ہی 6 ماہ کےلیے یہ ضلع باقی ملک سے کٹ آف ہوجاتا تھا جس کی بنا پر چترالی عوام کےلیے شدید مشکلات کا باعث بنتا تھا ـ تاہم ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف صاحب کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے لواری ٹنل پر کام شروع ہوا جو کہ تا ہنوز جاری ہے ـ جس کی بنا پر تقریبا ہی کسی حد تک چترال سے دیر کا راستہ مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کےلیے میسر ہوتا ہے ـ ہمارا ضلع قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے ـ ہمارا ضلع شرح خواندگی میں باقی ضلعوں سے کافی آگے ہے ـ اس ضلع کی جغرافیائی حیثیت بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے مشرق کی جانب گلگت بلتستان واقع ہیں جنوبی مشرقی جانب وادی سوات واقع ہے شمال اور شمالی مشرقی جانب چین اور افغانستان کے واخان پٹی ـ اس ضلع کی جغرافیائی لحاظ کو ملحوظ خاطر رکھ کر حکومت چترال کو چین اور تاجکستان سے لنک کرے تو معاشی انقلاب بپا ہو سکتا ہے ـ چترال ٹو گلگت اور تاجکستان روٹ پر نظر ثانی کیا جائے تو چترال ڈائرکٹ وسطی ایشیائی ممالک سے کنکٹڈ ہو جائے گا ـ اسی طرح چکدرہ ٹو چترال روڈ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ـ ایک اور پہلو جوکہ سی پیک روٹ کے حوالے سے ہے اگر سی پیک کے روٹ میں کوئی وقتی روکاٹ حائل ہوتی ہے تو شہراہ قراقرم سے چترال پھر سوات سی پیک کا متبادل راستے کے طور پر قابل استعمال ہو سکتاہے مگر ایک مسئلہ اس راستے میں حائل ہوسکتا ہے شہراہ قراقرم کی چوڑائی چائنیز گاڑیوں اور کنٹینرز کے آمدورفت کےلیے ناکافی ہے جس پر غور و فکر جاری ہے ـ اگر یہ سارے کام انجام پاتے ہیں تو پھر چترال پورے صوبہ اور ملک کےلیے تجارتی اور معاشی حب بن جائے گا اور سستی گیس چترالی عوام کو میسر آئے گی ـ جس کی بدولت جنگلات کی کٹائی بھی ختم ہوجائے گی ہمارے جنگلی چرند پرند اور ان کی پناہ گاہے بھی محفوظ رہیں گی ـ ضلع چترال کافی عرصے سے بجلی کے شدید بحران سے دوچار ہے باوجود اس ضلع میں دریائے چترال کے اور پانی کی فراوانی کے اہلیان چترال بجلی کی نعمت سے محروم ہیں ـ اس حوالے سے کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے مثال کے طور پر 108 میگا واٹ گلین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام تیزی کے ساتھ جاری ہے جو کہ 2017 کے وسط تک پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا ـ اس کے علاوہ خاص چترال ٹاون میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کےلیے گلین ہی کے مقام پر 2 میگا ورٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام جاری ہے جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے ـ ضلع چترال کی آبادی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے زیادہ تر دہی علاقوں کے لوگ مثلا گرم چشمہ ، بمبوریت ، گولین ، بروغل ، بونی ، مستوچ ، مولکہو اور تورکہو جیسے علاقوں سے لوگ چترال شہر کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے سب سے بڑھے ضلعے کی چھوٹے سے شہر کی آبادی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ گیا ـ آئے روز نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں صحت و صفائی کے مسائل ، رہائش کے مسائل ، ٹریفک اور آمد و رفت کے مسائل بھی اسی ذیل میں آتے ہیں ـ شہر کی آبادی بڑھتی جارہی ہے اور نامناسب اور پرانے طرز پر بنے گھر ، گلی محلے اور سڑکیں آبادی کی بے قاعدگی کی زد میں ہیں ـ ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹی اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر ہیں گھر کے کوڑے کچہرے ندی نالوں میں بہائے جارہے ہیں ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ کوڑے کچہرے کی بوریاں بھر بھر کر دریائے چترال میں بہاتے ہیں جو کہ میری نظر میں ایک سنگین جرم ہے ـ چترال میں عام پبلک کے تفریح کےلیے کوئی خاص پبلک اسپوٹ نہیں تھا سوائے چھوٹے بچوں کے آرمی پارک کے لیکن ضلع چترال کے ڈی سی اسامہ احمد وڑائچ صاحب نے بہت کم عرصے میں دنین لینک کے مقام پر دریا چترال کے ساتھ ایک خوبصورت اور دلکش پارک چترالی عوام کو تحفہ میں دیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اس طرح کے اور بھی ترقیاتی کام ہونے چاہئے ـ چترالی نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے مگر چترال میں ابھی تک کوئی معیاری گراؤنڈ نہیں ہے نہ ہی اسپورٹ اکیڈمی کرکٹ اور نہ ہی فٹ بال کا گراؤنڈ اس کے باوجود ہمارے نوجوان چترالی قومی سطح پر چترال کی بھر پور نمائندگی کر رہے ہیں ـ ایک چترالی بیٹی پاکستان فٹ بال اے ٹیم کا حصہ ہے ـ