محمد شریف شکیب….پی ایس ڈی پی پراجیکٹ

خیبر پختونخوا میں رواں مالی سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 139 بڑے ترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں ان منصوبوں کے لئے رواں سال کے نومہینوں میں 76 ارب روپے سے زائد رقم جاری کی جا چکی ہے۔ منصوبوں پر مالی سال کے آخر تک جاری شدہ فنڈز کا سو فیصد خرچ کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ محمود خان کو رواں مالی سال کے دوران پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے لیے نئے مجوزہ منصوبوں پر بریفنگ دی گئی اجلاس کوبتایا گیا کہ مختلف شعبہ جات کے 40 منصوبے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں شامل کرنے کی تجویز ہے جن میں 360 کلو میٹر طویل پشاور ڈی آئی خان موٹر وے، چکدرہ دیرچترال ایکسپریس وے، چشمہ رائٹ بنک کنال، پنج کوڑہ ریور لفٹ رائٹ بنک کنال، موڑکہو، کوشت اور کاغ لشت ایری گیشن سکیم شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ نے مجوزہ منصوبوں کی آئندہ پی ایس ڈی پی میں شمولیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ تمام مجوزہ منصوبوں کے پی سی ون فوری تیار کئے جائیں اور متعلقہ فورم سے ان کی بروقت منظوری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مذکورہ منصوبے آئندہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہو سکیں۔شعبہ مواصلات کے مجوزہ منصوبوں کے بارے میں اجلاس کوبتایا گیا کہ 10 کلومیٹر طویل صوابی بائی پاس روڈ، 149 کلومیٹر طویل مستوج بروغل روڈ کے پی سی ون کو حتمی شکل دی جارہی ہے جو عنقریب متعلقہ فورم کو منظوری کے لیے بھیج دیئے جائیں گے۔ آبپاشی کے شعبے میں تو رہ وڑئی ڈیم کی تعمیر سمیت دیگر منصوبوں کے پی سی ون صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی سے منظور ہوچکے ہیں۔صوبائی حکومت کی طرف سے مواصلات اور زراعت کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو اولیت دینا اس حوالے سے اہم فیصلہ ہے کہ کھیتوں سے مارکیٹ تک سڑکوں کی تعمیر سے دیہی علاقوں کے کاشت کاروں کو اپنی زرعی پیداوار، سبزیاں اور پھل مارکیٹ تک پہنچانے میں مدد ملے گی جس سے ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔رسل و رسائل کی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ کروڑوں روپے مالیت کے رسیلے پھل ضائع ہوجاتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کی بدولت جہاں لوگوں کو آمدورفت میں آسانی ہوگی، وہیں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور سیاحوں کے لئے صوبے کے خوبصورت سیاحتی مقامات تک رسائی آسان ہوگی۔ صوبے میں زراعت کو فروغ دینے پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی،جس کی وجہ سے زرعی اجناس درآمد کرنی پڑ رہی ہیں۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے۔ وہاں پانی پہنچا کر کاشت کے قابل بنانے سے صوبہ زرعی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومت نے چند سال قبل اپرچترال کے طویل بنجر علاقے کاغ لشٹ میں رہائشی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ تاہم رہائشی منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اب حکومت نے اسے زرعی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کاغ لشٹ کے مشرقی سمت میں دریائے بیار اور مغربی سمت میں دریائے موڑکہو بہتا ہے بمباغ کے مقام پر دونوں دریا آپس میں ملتے ہیں۔ لفٹ سکیم کے ذریعے دریائے موڑکہو سے پانی اٹھا کر ہزاروں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بنانے سے زرعی خود کفالت کے ساتھ ہزاروں خاندانوں کو روزگار بھی ملے گا۔ ساتھ ہی نہر اتہک اور کوشٹ نہر کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں شامل کرکے صوبائی حکومت نے اپرچترال کے عوام کے دیرینہ مطالبات پورے کئے ہیں۔ مواصلات کے شعبے میں ڈیڑھ سو کلو میٹر طویل مستوج بروغل روڈ بھی ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سے واخان کے راستے تاجکستان تک زمینی رسائی میں مدد ملے گی۔ وسطی ایشیاء کے لئے زمینی تجارتی راستہ کھل جائے گا جس سے نہ صرف چترال بلکہ پورے صوبے میں ایک معاشی انقلاب برپا ہوگا۔ توقع ہے کہ صوبائی حکومت ان منصوبوں کے لئے وسائل کی کمی آڑے نہیں آنے دے گی۔ اور قومی ترقی کے ان اہم منصوبوں کو مقررہ ٹائم لائن کے اندر مکمل کیاجائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔