مبارک باد اریانہ اعظم

۔۔۔۔۔نثار احمد۔۔۔۔۔۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ظہر کے بعد سہ پہر کو موبائل سامنے میز پر دھر کر چائے نوشی کے مزے لیتے ہوئے ایک دوست کے ساتھ مجلس جمی۔ مجلس میں چائے کی باآواز چسکیاں بھی تھیں اور ایران و توران کے مسائل پر مغزخوری بھی۔ میرے سامنے والی کرسی پر تشریف فرما دوست ایک مبیّنہ سوشل ایکٹوسٹ (بہن) کی ویڈیو لے کر کافی دل گرفتہ تھا۔ انہیں دُکھ اس بات پر تھا کہ ہماری اس بہن نے یہ بات پہلے ہمیں کیوں نہیں بتائی کہ ہماری شناخت و پہچان ان جیسی ایکٹوسٹ کی مرہونِ منت ہے۔ موصوفہ اور دوسرے سِنگرز کی وجہ سے چترال کا نام بھی روشن ہے اور چترالیوں سے لوگوں کا تعارف بھی۔ اگر موصوفہ اپنا وُجود مسعود لے کر دنیا میں تشریف نہ لاتی تو باقی دُنیا کو کیسے پتہ چلتا کہ فلک بوس پہاڑوں کے بیچوں بیچ مختلف اقوام پر مشتمل موسوم بہ چترالی انسانوں کی ایک نسل رہتی ہے جس کی شہرت چترال سے باہر ایک مہذب، باوقار اور شریف قوم کے طور پر ہے۔ یوں موصوفہ کے بغیر ہم نہ لواری ٹنل کے اُس پار لوگوں کو بطورِ انسان اپنی شناخت و پہچان کرا پاتے اور نہ ہی ترقی و تمدن کے رنگ سے خود کو ہم رنگ کر پاتے۔ اس عظیم کنٹریبیوشن پر ہم نہ صرف موصوفہ کے شکر گزار ہیں بلکہ ان غیر سرکاری تنظیموں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو سال میں ایک آدھ دفعہ ثقافت کے بقاؤاستحکام کے لیے محفلِ رقص و سرود کا انعقاد کر کے سال بھر کے لیے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ میں مزاحیہ فنکار منور شاہ رنگین کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتا کہ اگر موصوفہ کی چترالیوں کے لیے کوئی خدمت ہے تو وہ سامنے لائے۔فیس بک پہ ویڈیو اپلوڈ کرکے تفاخرانہ انداز میں ناکردہ احسان جتانا کوئی چھوٹی خدمت ہے کیا؟؟؟ جو آپ مزید کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بیچاری اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
بہرکیف جواب میں ہمارے دوستوں نے بھی احتجاج ریکارڈ کرانے کے نام پر فیس بک میں خوب اودھم مچاکر موصوفہ کی دلی مراد پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے خلاف اندھا دھند احتجاجی پوسٹس لگانے اور کمنٹس چڑھانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف موصوفہ کی شہرت دیکھتے ہی دیکھتے آسمانوں کو چُھونے لگی بلکہ فین فالونگ اور لائکنگ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ کسی بھی یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر کی پہلی اور آخری خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان کی ویڈیو کو لائک کرکے سبسکرائب کرنا نہ بھولے۔
پرانے وقتوں میں، جب فیس بک سے پالا نہیں پڑا تھا، کسی فلم کی ایڈوانس مشہوری کے لیے فلم میکرز کی طرف سے کمال ِ ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات ”اُڑوائی” جاتی کہ
”ایک فلم مارکیٹ میں آ رہی ہے جس کے ایک ڈائلاگ میں اللہ کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ کا استعمال ہوا ہے، خدارا اس فلم کو ریلیز ہونے سے روکنے کے لیے اپنے تمام فرینڈز کو یہ میسج فارورڈ کیجیے۔”
یوں صوم و صلوٰۃ کے پابند نوجوان یہ سوچ کر میسج پیکچ لگاکے فلم کی تشہیری مہم میں جُت جاتے کہ یہ ہماری ادنی دینی و شرعی زمہ داری ہے۔ اور جمعہ جمعہ مسجد کو شرف زیارت بخشنے والے نوجوان یہ سوچ کر، کہ شاید یہی ہماری بخشش کا ذریعہ بنے۔ یوں ادنی شرعی زمہ داری کی بجاآوری کا احساس اور بخشش کی امید مل کر مذکورہ فلم کے بزنس کھاتے میں ڈالروں کے انبار لگوادیتے۔ اب طریقہ ء واردات چینچ ہوا ہے۔ تھوڑی سی شرینی لگانے پر سب کچھ فیس بک میں دیکھتے ہی دیکھتے خود بخود ہو جاتا ہے۔
بہرحال ابھی ہماری گپ شپ چل ہی رہی تھی کہ انبکس میں ایک پیغام نمودار ہوا کھول کر دیکھا تو بمبوریت سے مولانا انیس الرحمن نے اسلام آباد سے بڑی خبر بریک کی تھی کہ ”پاریک” سے شہرت پانے والی مشہورِ زمانہ ینگ کلاش سنگر اریانہ اعظم حلقہ بگوش اسلام ہو چکی ہے۔ پیغام پڑھ کر خبر کی صحت جانچنے کے لیے فون کیا تو جواب ملا کہ تھوڑی دیر میں اریانہ کے کزن سے کنفرم کرکے مطّلع کرتا ہوں۔ ابھی بیس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ دوست نے نہ صرف فون کرکے مصدّقہ اطلاع دی بلکہ ایک عدد تصویر بھی بھیجی جسے آریانہ کی قبولیتِ اسلام کے وقت کھینچی گئی تھی۔ تصویر دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کے دو بڑے بڑے قطرے نکل کر رخسار پر بہتے ہوئے ڈاڑھی کے چہرے والے حصے میں جا گُھسے۔ ایسا کیوں ہوا مجھے خود نہیں پتہ۔ بعض چیزیں خود بخود بے ساختہ ہو جاتی ہیں انہیں قلم کی زبان عطاء کرنا، الفاظ میں ڈھالنا اور اُن کی لِم سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ کہاں وہ شہرت کی بلندیوں کی طرف محو ِ پرواز اریانہ، جو مزے لے لے کر بتاتی تھی کہ میں سینگر بنوں گی کیلاشی میں نام کماؤں گی کہاں یہ اریانہ جو کلمہء اسلام پڑھنے کے بعد انتہائی باوقار انداز میں آنکھوں میں متانت و سنجیدگی لیے صوفے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ استقامت نصیب فرمائے۔
کندیسار بمبوریت میں محنت مزدوری سے وابستہ رحمت اعظم کلاش کے ہاں تولّد پانے والی اریانہ اعظم نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کراکاڑ اور مڈل تعلیم لوسی ہیریسن گرلز ہائی سکول لاہور سے حاصل کی۔ میٹرک کے لیے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بمبوریت میں داخلہ لیا جہاں کرونا کی وجہ سے تا حال دسویں کا امتحان نہیں دے سکی ہیں۔ اریانہ کی خوش ذوقی اور عربی سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے میٹرک میں عربی کو آپشنل سبجیکٹ کے طور پر رکھا تھا۔ اپنی مسحور کن سریلی آواز کا جادو صرف لوگ گیتوں اور گانوں میں ہی آپ نہیں جگاتی رہی ہیں بلکہ نعت خوانی کے زریعے بھی آپ اپنی آواز کی زکوٰۃ نکالتی رہی ہیں۔ خوش اخلاقی کی صفت سے مالامال اریانہ طبعاً انتہائی نرم خُو اور منکسر المزاج ہے۔ کل چھ بھائی بہنوں میں چھٹے نمبر ہونے کی وجہ سے غالباً آپ گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی بھی ہیں۔
انتہائی کم سِنی میں ہی آریانہ کو شہریت کی وہ بلندیاں نصیب ہوئی ہیں جو اس میدان میں کسی کسی کے حصّے میں آتی ہیں۔ وضاحت صرجیوقتاً فوقتاً مختلف قومی اور بین الاقوامی چینلز و اخبارات آپ کے انٹرویوز کو نمایاں کوریج دیتے رہے ہیں۔ آپ کا ایک انٹرویو بی بی سی میں بھی نشر ہوا تھا۔ آپ کے ریکارڈ بک میں یہ بھی شامل ہے کہ انٹر سکول مقابلوں میں آپ ضلعی لیول پر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد ڈیوژنل مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے آؤٹ آف ڈسٹرکٹ بھی جا چکی ہیں۔
تین چار ماہ قبل بمبوریت ہی سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر ولی خان بھی اپنی پوری فیملی سمیت دین ِاسلام قبول کر چکے ہیں۔ ایک سینیئر سکول ٹیچر ہونے کے ناتے ولی خان استاد کو اپنے مذہب میں کسی بھی حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ان کا قبول ِ اسلام اُن چند دوستوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت میں معاشرتی جبر کا بھی عمل دخل ہے۔ درحقیقت جتنے بھی ہمارے کیلاش بھائی اسلام قبول کرتے ہیں وہ مکمل شعور و احساس کے ساتھ پوری طرح اپنی مرضی سے کرتے ہیں اُن پر کسی بھی قسم کا معاشرتی دباؤ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی لالچ و طمع۔سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے اُن کے تمام حقوق کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا بلکہ ان کے حقوق انہیں اُن کے گھر کی دہلیز تک پہنچانے کی بھی ہرممکن کوشش ہوتی ہے۔ اریانہ جیسی بولڈ بیٹی چاہتی تو اپنے کیلاشی مذہب میں رہ کر اس دنیا میں نام ہی نہیں، بہت ساری دولت بھی کما سکتی تھی اور پُرتعیش زندگی کے لیے مطلوب زرائع و وسائل بھی۔ لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کو پاؤں تلے روند کر نسبتاً پُرمشقت زندگی کو ترجیح دی۔ اخروی کامیابی کا طمع ہی یقیناً واحد طمع ہے جو کھینچ کھانچ کے ایسے لوگوں کو اسلام کی طرف لاتی ہے ورنہ دنیاوی لحاظ سے تو مسلمان بننے کے بعد نوع بنوع کی آزمائش و الام سے اِن نو مسلموں کا دوچار ہونا خود ان سے بھی مخفی نہیں ہے۔
تین چار سال پہلے کی بات ہے جب سکول بریک میں اپنے ایک دوست استاد کو بتایا کہ کیلاش ویلی کے فلاں نے اسلام قبول کیا۔ تو مسکراتے ہوئے مزاح مزاح میں جواب دیا۔
”اوہو سر اسراف بیرو بیائی وا موش۔ ہے ای کمہ پھولوکان ہے تِھیکو لاکُور کی، ہیتان بچین روئی افار ہائی گونیان،ہیتان سف مسلمان کوری کیاغ کومیان”
اگرچہ میرے اس دوست نے مزاح مزاح میں یہ بات کہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بعض دوست اسی سوچ کے حامل ہیں۔ ذیادہ نہیں اگر تھوڑا سا بھی زہن پر زور دے کر بات سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات دنیا کے ہر میزان اور کسوٹی پر غلط ٹھہرے گی کہ ابدی فوزوفلاح کے لیے اسلام جیسے آفاقی دین میں پناہ لینے کے لیے آنے والے کسی انسان کے راستے میں محض اس لیے رکاوٹ کھڑی کی جائے کہ اس کے قبول ِ اسلام کی وجہ سے علاقے کی سیاحت اور دنیا کا حسن خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہاں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جاکر کوئی انہیں تبلیغ کرتا ہو یا پھر اُنہیں دنیاوی عیش و عشرت کا جھانسہ دیتا ہو۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ کیلاش ویلیز میں تو غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے پر بھی پابندی ہے۔ بس جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے تو وہ خود ہی اللہ کے پسندیدہ دین میں داخل ہو جاتا ہے۔ آج میری فون پر آریانہ بیٹی سے بات ہوئی۔ اندازِ تکلم بتا رہا تھا کہ اریانہ بیٹی بہت خوش اور مطمئن ہے۔ میرے سوال پر خود اُن کا کہنا تھا کہ جی میں اپنی خوشی اور رضامندی سے مسلمان ہوئی ہوں ”۔
اپنے اباو اجداد کے مذہب سے ناتہ توڑ کر نئے مذہب میں داخل ہونا کسی بھی فرد کے لیے بہت سارے مسائل و مشکلات بھی جنم دیتا ہے۔ اپنے پرانے مذہبی علائق و روابط سے یک دم کنارہ کش ہو کر محمّدی قافلے کا حصّہ بننے والا کوئی بھی نومسلم مسلمانوں کی طرف سے اضافی حُسنِ سلوک اور بہت زیادہ ہمدردی کا سخت مستحق ہے۔ بدقسمتی سے نو مسلموں کے تئیں ہمارے چند مسلمان بھائیوں کا رویّہ بعض حوالوں سے انتہائی پست رہا ہے۔ بالخصوص نومسلم خواتین کے حقوق کی بابت بعض ایسی کوتاہیاں ہوئی ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ ان واقعات کو اب کسی بھی صورت میں دُہرانے نہیں دینا چاہیے اُن لوگوں کو معاشرے کی نظر سے گِرا کر عمومی نفرت کا نشانہ و استعارہ بنانا چاہیے جو نو مسلم خواتین سے زندگی بھر کا تعلق جوڑنے کے بعد تین چار سال بھی نکال نہیں پاتے۔ اس کوتاہی میں قصور ہمارے معاشرے اور معاشرے میں پھیلی غیر مسلموں کے بارے میں مخصوص ذہنیت کا بھی ہے۔ ایسے میں ہماری مسلمان ماؤں بہنوں کی زہن سازی کی اشد ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطاء فرمائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔