مدارس اور علماء مملکت خداداد پاکستان کے جانثار سپاہی

…………….تحریر مفتی محمود الحسن( مہتمم جامعہ تعلیم الاسلام للبنات شاہنگارو ممبر ڈسٹرکٹ کونسل دروشI)……..

گذشتہ دنوں چترال ایکسپریس اور چترال ٹوڈے میں ارشاد مکرر نامی کسی بندے کا مضمون شائع ہوا جس کے مندرجات محض الزام تراشی،کردار کشی، اور عناد پرورانہ ذہنیت کے عکاس ہیں جوکہ قارئین پر پوشیدہ نہیں تاہم مدارس اور علماء کے کردار پر انگشت نمائی کی مذموم کوشش نے ذیل سطور سپرد قرطاس کرنے پر آمادہ کردیاہے۔
تحریک پاکستان کے سرخیل دارالعلوم دیوبند کے شیوخ الحدیث علامہ شبیر احمدعثمانی،علامہ ظفر احمدعثمانی اور اشرف علی تھانوی سے لیکر قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے قانون ساز اداروں کی نمائندگی تک اور 9/11 کے بعد پاکستان کی جغرافیائی ونظریاتی سرحدات پر مغرب کی جانب سے تابڑتوڑ حملوں کے سامنے سینہ سپر ہونے والے عثمانی و تھانوی کے روحا نی جانشینوں کی لازوال، عمدہ اور بے مثال خدمات کو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے گا۔ خصوصاً ملاکنڈ ڈویژن پر جو حالات گزرے وہ کسی چشم بینا سے پنہاں نہیں، لیکن ان حالات میں باوجودیکہ چترال کی طویل سرحد افغانستان سے ملی ہوئی ہے۔ علماء نے ایک ایسا عمدہ اور مثالی رویہ اپنایا کہ چترال کو دست قدرت نے فتنوں کی آماجگاہ بننے سے محفوظ رکھا ۔ فللہ الحمد
یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ علماء مملکت خداداد پاکستان کو اپنے بزرگوں و اسلاف کا عظیم ورثہ، لاکھوں فرزندان توحید کے خون کا ثمرہ اور اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں نیز پاکستان کی حفاظت کو اپنے ایمان کا جزء لاینفک اوراسکی حفاظت کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی کو اپنا سرمایہء حیات تصور کرتے ہیں۔
آج پاکستانی طلباء اعلی عصری تعلیم کے لیے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ بوریہ نشین علماء ہی تھے جنہوں نے پاکستان کویہ اعزاز ومقام بخشا ہے کہ پوری دنیا سے لوگ دینی تعلیم کے لیے عرب ممالک اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز کے بجاے پاکستان کے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں جسکا اعتراف پاکستان کی فارن منسٹری اورمحکمہ اوقاف بارہا کر چکے ہیں۔
جہاں تک اس مدرسہ کا تعلق ہے جس کا تذکرہ اس مضمون میں ہواہے یہ مدرسہ بھی پاکستان کے نامور ومقتدر تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ ہے جس کی ویب سائٹ www.wifaqulmdaris.com پرپاکستان کے تمام مدارس اور مدرسہ ہذا کی ساری تفصیلات موجودہیں نیز تمام ریاستی اداروں کے لیے مدارس دینیہ کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں اور اداروں کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کو اپنا اخلاقی و محب وطن شہری کے فرئض میں داخل سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ ریاستی ادارے ادارہ ہذا کے اس مثالی تعاون کے خود بھی شاہد ہیں اور آئندہ بھی ریاستی اداروں کے لیے ہمارا تعاون حاضر رہے گا۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ ادارہ آج اچانک وجود میں نہیں آگیا بلکہ سن 1997 ء سے قائم ہے اور یہاں کی فیض یافتہ طالبات ملک بھر میں صالح اسلامی معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب تک ادارہ ہذا سے 600 طالبات نے قراٰن کریم کا حفظ مکمل کیا ،250 طالبات نے درس نظامی (ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات کی ڈگری) کی تکمیل کی،300 طالبات نے قراٰن کریم کا ترجمہ پڑھا اور قاعدہ اور ناظرہ قراٰن کریم پڑھنے والی طالبات کی تعداد ہزاروں میں ہے ،بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ خود موصوف کی فیملی کی کئی سعادت مند بچیاں بھی مختلف اوقات میں اس مدرسے میں تعلیم پاتی رہی ہیں، موصوف کو آج 2013 ء کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے علاوہ آخراور کیا ہوگیا کہ آنجناب اپنی ہی بچیوں کے خلاف زہر اُگلنے لگ گئے۔
بات کچھ یوں ہے کہ موصوف کی ماضی میں جھانک کر دیکھا جاے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاے گی کہ آنجناب جب بھی اپنے حریف سے منہ کی کھا جاتے ہیں تو اس کو طالبان اور دہشت گردوں کے ساتھ نتھی کرنے کا وطیرہ اپنالیتے ہیں۔اگر عداوت کا عینک اُتار کر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو چترال کا شاید ہی کوئی خاندان ہوگا جس کا کوئی نہ کوئی چشم وچراغ مدرسہ ہذا کا بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض یافتہ نہ ہو،اس تعلیمی کاوش کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل کے ذریعہ مقدور بھرخدمت خلق کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں،جوبعض مرتبہ ہمارے مہربانوں کے لیے باعث قلق ہوجاتی ہے( جس کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں)۔
بہر کیف موصوف نے سابقہ ریکارڈ چیک کرنے کا مطالبہ کیا ہے ہم اس مطالبہ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ دروش، چترال اور ایون کے تھانوں کاریکارڈ کھولا جائے انشاء اللہ علماء کو شراب کی بوتلوں کے پیچھے منہ چھپانے اور پناہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کاپانی ہوجائے۔
الحمد للہ بلیک میلنگ، کردارکشی، الزام تراشی، شراب نوشی، نقض امن، ہیجان انگیزی،اداروں کو بدنام کرنے اور دوسرے جرائم کے ارتکاب سے علماء کا دامن پاک ہے۔ فللہ الحمد
ٹکسٹ میسجز اور دوسرے سائبر کرائمز کی بات بھی موصوف نے چھیڑی ہے لیکن موصوف الزام تراشی کی گرم بازاری میںیہ بھول ہی گئے کہ جناب خود منافرت انگیزمیسجزاور کئی کئی جعلیfake) ) اکاؤنٹ رکھتے ہیں اچھا ہے کہ لگے ہاتھوں یہ معاملہ بھی نمٹا لیا جائے تاکہ نہ بجے بانس نہ بجے بانسری۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔