SRSP دو میگاواٹ بجلی کا معمہ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔سلیم بخاری
چترال پانی کے ذخائرسے مالہ مال خطہ ہونے کیوجہ سے زیادہ موزوں اور محفوظ ہے۔اس لئے مختلف غیر سرکاری ادارے یہاں پر چھوٹے پن بجلی گھروں کے ٹاسک کو لینے مین زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔SRSP ان میں سب سے بڑا ادارہ ہے۔ جو ضلع کے اندر 150 KW سے لیکر 2.2 MW تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔حال ہی میں گولین برموغ کے مقام پر 34 کروڑ کی لاگت سے 2.2 MW کے پن بجلی کی تیاری عمل میں لایا جاچکاہے۔ بجلی پیدا کرنے کی پیداوار میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ۔پاورہاؤس میں انجینئرز اور ٹیکنیشن ہمہ وقت اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہیں ۔ایس۔آر۔ایس۔پی کی سیاست یہ ہے کہ وہ بجلی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو سہولت دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ بیرونی سیاست یہ ہے کہ بجلی عوام کو نہ ملے۔ ایس۔آر۔ایس۔پی کوئی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ یہ ایک پروجیکٹ ہے جو ڈیولپمنٹ اور ہیومینیٹرین بنیاد پر کام کررہا ہے ۔ایس۔آر۔ایس۔پی کو ڈونیشن دی جاتی ہے کیونکہ ڈونرز ان کے کارکردگی کو دیکھ کر ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔ حالیہ دو میگاواٹ بجلی بھی اپنے تیکنیکی لحاظ سے بجلی پوری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے البتہ اس بجلی کی تقسیم اور شیڈول معمے کا شکار ہوچکا ہے۔ معمے کے تین وجوہات ہیں ۔
پہلی وجہ ایہ ہے کہ ایس۔آر۔ایس۔پی کے پاس اپنا ٹرانسمیشن لائن موجود نہیں ۔ بجلی کی تقسیم شیڈو اور واپڈا کے لائنز سے ہوتا ہوا ٹاؤن پہنچتا ہے۔کیونکہ ایس۔آر۔ایس۔پی کا کام پن بجلی بنانا ہے ٹرانسمیشن لائنز بچھانا نہیں ۔اگر کر بھی لے تو اس پے اتنا ہے خرچہ آئے گا جتنا حالیہ پن بجلی پرآچکا ہے۔
دوسری وجہ واپڈا حکام کی اپنی روایتی ھٹ دھرمی ہے جس پر جملے بنانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ایس۔آر۔ایس۔پی اب تک تقریبا 5 لاکھ یونٹ واپڈا لائنز پر دے چکا ہے اور یقیناًیہ ہماری بجلی میٹرز کی ریڈنگ میں پانچ لاکھ یونٹ جمع کرچکا ہے۔
تیسری وجہ سیاسی اور ضلعی حکومت کی مداخلت ہے۔ چونکہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں جو رائے عامہ پایاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ پن بجلی گھرضلعی حکومت کے نگرانی میں نہیں بنی ہے۔تو یہاں سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر یہ ضلعی حکومت کی نگرانی میں نہیں بنی ہے تو پھر آج اس مداخلت کا مطلب کیا ہوسکتا ہے۔پاورکمیٹی نے جلسے جلوس نکالے ۔ضلعی حکومت ،ایس۔آر۔ایس۔پی،PML(N)،PTI،اور ضلعی ناظم کو مردہ باد کہے۔چنانچے دو میگاواٹ بجلی برموغ کے مقام پر پیدا ہوکر دفن ہوجاتا ہے۔ اور اس کو دفن کرنے والے ضلعی حکومت ،صوبائی حکومت ، اور وفاقی حکومت ہیں۔ عوام کو سیاسی جال میں پھنسا کر شرافت کا درجہ دیا گیا جس سے عوام کے 34 کروڑ روپے ضائع ہونگے ۔
اب اگر ہم ایک منظم قوم ایسے ہی سوالات اٹھاتے رہیں گے تو ہمیں بجلی کب ملے گی۔ یہاں ایک صورت میں بجلی ملے گی جب الیکشن کا دوردورہ ہو ۔لیکن اب روز روز کہاں الیکشن ہوتے ہیں ۔ لہذا ہمارے پاس ایک صورت ممکن ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کے گریباں میں ہاتھ ڈالیں۔آخر ہمارے منتخب نمائندے کس مرض کی دوا ہیں ۔جب عوام کے درمیاں غلط فہمی پھیلے جب بڑے اداروں کا کام متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ جب عوام کو ملی ہوئی سہولت چھن جائے جانے کا خوف ہو تو ایم۔این،اے، ایم۔پی،اے اور ضلع ناظم کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چا ہیے ۔ چترال کے آبی وسائل کا فائدہ بہت پہلے اٹھایا جاتا اگر ہمارے منتخب نمائندے اپنے ذمہ داری پوری کرتے توآج چترال ٹاؤن تاریکی میں ہر گز نہ ہوتا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔