صدابصحرا …..سیلاب ، ایمرجنسی اور این او سی

لہاسہ لداخ سے جموں کی طرف آتے ہوئے لمبا راستہ طے کر نا پڑتا ہے فوجی جیپ لہا سہ سے جموں آرہی تھی سٹارٹ بند ہوا ڈرائیور نے کہا تیل ختم ہو گیا پٹرول پمپ ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا میجر صاحب اپنے سیکورٹی گارڈ کے ہمرار نیچے اترے دونوں نے گاڑی کو دھکا دے کر بڑی مشکل سے پٹرول پمپ پہنچا دیا میجر صاحب نے تھکن اتاری ، پسینے پونچھے ،پانی پیا ، ڈرائیور نے گاڑی کی ٹینکی میں پیٹرول ڈلوایا میجر صاحب نے آوارز دی اوئے سردار گمیشں سنگھ !پیچھے جو جیری کین ہے اس کو بھر وادو ڈرائیور نے سلیوٹ مارا اور جواب دیا سرجی ،ہمارا جیری کین پہلے سے بھرا ہوا ہے ، ایمرجنسی کے لئے رکھا ہے سردار گمیشں سنگھ کے نزدیک پیڑول پمپ سے ڈیڑھ کلومیٹر دور پٹرول کا ختم ہونا اور میجر رینک کے افسر کا نیچے اتر کر دھکا دینا ایمرجنسی کے زمرے میں نہیں آتا تھا آپ نے اگر سیلاب دیکھا ہے آپ پر آگر آفت گذری ہے یا آپ اگر ایمرجنسی میںآفت زدہ اور سیلاب زدہ لوگوں کو ریلیف دینا چاہتے ہیں ان کی بحالی میں مدد دیناچاہتے ہیں اور نو ابجکشن سرٹیفکیٹ یعنی این او سی کے لئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سے رجوع کر تے ہیں توآپ کا واسطہ قدم قدم سردار گمیشں سنگھ سے پڑتا ہے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پی ڈی ایم اے  ایمرجنسی رسپانس کے لئے قائم ہونے والے ادارے تھے جو بد نیتی سے بنائے گئے تھے جنرل مشرف نے 2005 ء میں زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے بیرون ملک سے آنے والے رقم کو زلزلہ زدگان تک پہنچنے سے روکنے ،ضلعی انتظامیہ ، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کو بے دست وپا کر نے کے لئے این ڈی ایم اے قائم کیا اس وجہ سے 10 سالوں میں نیو بالاکوٹ سٹی کی تعمیر کاآغاز نہ ہوسکا پی ڈی ایم اے کا مقصد بھی مصیبت زدہ لوگوں کی مدد نہیں بلکہ ان کو بے یارو مدد گار چھوڑنا ہے 2013 ء اور 2014 ء کے سیلاب زدگان اب تک بحالی کے منتظر ہیں 2015 ء کے سیلاب کو دو مہینے گذرگئے 15 جولائی کو چترال میں سیلاب آیا تھا پہلے روز 3 شہریوں کی ہلاکت ہوئی 22 جولائی کو مرنے والوں کی تعداد 33 اور 24 جولائی کو مرنے والوں کی تعداد 35 ہوگئی 8 مقامات پر گلیشیائی جھیل پھٹ پڑے تھے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی پہلے ریسکیو کا مرحلہ آیا پھر ریلیف کا مرحلہ آیا اب بحالی کا مرحلہ آیا ہے دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ریسکیو کے لئے 24 گھنٹے درکار تھے ریلیف کے لئے دو ہفتے درکار تھے بحالی کے لئے 3 مہینے درکار تھے این ڈی ایم اے نے قانون بنایا کہ کوئی این جی او، کوئی ڈونر ،عطیہ دینے والا ادارہ این او سی  کے بغیر کام نہیں کر سکیگا اور گذشتہ دو مہینوں سے این او سی کی درخواستیں پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کے پاس زیر التوا پڑی ہوئی ہیں ریسکیو نہ ہوسکا ،ریلیف نہیں ملا بحالی کے کام کا مرحلہ آیا تو دو مہینے این او سی کے انتظار میں گذرگئے 8 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع علاقوں میں سردی آگئی سیمنٹ اور گارے کا کام نہیں ہوسکتا اسلئے سیلاب زدہ لوگ کھلے آسمان تلے سردیاں گذارینگے مئی، جون 2016 ء میں کام کا سیزن دوبارہ آئے گا تو ایک بار پھراین او سی کے لئے خوار ہونا پڑے گا سردار گمیشں سنگھ سلیوٹ مارتا ہے اور کہتا ہے ’’ سرجی این او سی صرف ایمرجنسی کے لئے ہے ‘‘ اُن کے نزدیک 35 شہریوں کا مرنا اور 38 دیہات کا ملیا میٹ ہونا ایمرجنسی نہیں ہے سردار گمیشں سنگھ کے پاس این او سی ہے تاہم اُسے ایمرجنسی کا انتظار ہے 200 گھرانے کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں 700 گھرانوں کے جزوی نقصانات کا ازالہ ہونا ہے 3 لاکھ کی آبادی کو پُل ،سڑکیں ،نہریں اور آبنوشی کی سکیمیں بحال کر کے دینی ہیں رکاؤٹ صرف این او سی ہے تمہید زرالمبی ہوگئی مدعا یہ ہے کہ زمانہ 2005 ء سے آگے جا چکا ہے یہ سال 2015ء ہے کچھ لو گ کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی انتخابات ہوئے پہلے زرداری اقتدار میں آیا پھر نواز شریف کو حکومت ملی مگر این ڈی ایم اے اُسی حال میں قائم ہے جسطرح مارشل لا ء کے دور میں بنایا گیا تھا آفت پر اس کی اجارہ داری ہے آفت زدہ لوگوں کے لئے آنے والی آمداد پر اس کو منا پلی دیدی گئی ہے یہ اجارہ داری سیلاب زدہ علاقوں میں مجبور ،مظلوم اور محروم عوام کو ریلیف دینے کی راہ میں بہت بڑی رکاؤٹ ہے سیلاب زدہ لوگوں کی بحالی کا کام عدم مرکز یت کا تقاضاکرتا ہے اگر حکومت مخلص ہو تو بحالی کے کام میں ضلعی انتظامیہ ،عوامی نمائیندوں اور سول سوسائیٹی کے اداروں کو شریک کرتی ہے ضلعی انتظامیہ ہر جگہ موجو د ہے این ڈی ایم اے کی طرح اسلام آباد اور پشاور تک محدود نہیں عوامی نمائیندے گراس روٹ کی سطح پر عوامی مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اور عوام کو جوابدہ بھی ہوتے ہیں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے موقع پر موجود نہیں اورکسی کو جواب دہ نہیں اس لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں حکومت کی بد نامی ہوتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سے قرار دار منظور کر کے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ این ڈی ایم اے کی مسلسل ناکامیوں نے اس کو بے نقاب کردیا ہے این ڈی ایم اے کو توڑ دیا جائے گذشتہ 10 سالوں سے جولوگ این ڈی ایم اے سے وابستہ رہ چکے ہیں ا ن کو نیب کے حوالے کیاجائے او ر سیلاب زدگان کی بحالی کا سارا کام ڈی سنٹر یلائز کر کے ضلعی انتظامیہ کو دید یا جائے عوامی نمائیندوں کواس میں شامل کیا جائے سیلاب زدہ گاؤں کے لوگوں کے لئے مقامی چشمے کا پانی 50 ہزار روپے میں 2 سالوں کے لئے لایا جاسکتا ہے این ڈی ایم اے اس سکیم کی بحالی کو نظر انداز کر کے 30 لاکھ روپے میں منرل واٹر خرید تی ہے سی ون ،30 اور ہیلی کاپٹر وں کے لئے دونوں کے استعمال کے لئے فراہم کرتی ہے اسی طرح کی ستم ظریفی اُس وقت بند ہوگی جب تک حکومت سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے کام کو ایمرجنسی قرار دیکر این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سے واپس لے لے گی موجودہ حالات میں نظر یں صرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف ،کورکمانڈر لفٹننٹ جنرل ہدایت الرحمن اور جی او سی میجر جنرل نادر خان کی طر ف اُٹھتی ہے چترال میں سردی کا شدید مو سم آنے میں ایک ماہ رہ گیا ہے گذشتہ دو مہینوں میں سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے سلسلے میں 10 فیصد کام بھی نہیں ہوا 90 فیصد سے زیادہ کام ابھی باقی ہے اس لئے ایمرجنسی کو ایمر جنسی سمجھ کر کام کروانا چاہئے ورنہ اس کام پر بھی سردار گمیشں سنگھ۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔