مکتوبِ چترال……چترال ٹاون اور جنگل کا قانون

۔۔۔۔۔۔بشیر حسین آزاد۔۔۔۔۔

جنگل کے قانون میں طاقتورکمزور کو کھاتا ہے اور پُرسان نہیں ہوتا۔چترال ٹاون کی تین یونین کونسلوں میں ٹی ایم اے طاقتور ہے۔واپڈا کی کمپنی پیسکو طاقت ور ہے،پولیس طاقت ور ہے۔ضلعی انتظامیہ طاقتور ہے۔منتخب ناظمین طاقتور ہیں۔عوام کمزور ہیں۔تجار کمزور ہیں ،صارفین کمزور ہیں۔اس لئے طاقتور کا لقمہ بن جاتے ہیں۔پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔چترال ٹاون میں بقر عید کے ایک ہفتہ بعد بھی صفائی نہیں ہوئی۔حکومتی اعلانات میں کہا گیا تھا کہ عید کے دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی مگر عید کے دنوں میں روزانہ 14گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی عید کے بعد لوڈشیڈنگ کے اوقات میں مزید اضافہ کیا گیا۔اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ طول پکڑگیا۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ چترال ٹاون کی تین یونین کونسلوں کو لاوارث قرار دیا گیا ہے۔ضلعی انتظامیہ کہتی ہے کہ انتخابات ہوگئے۔منتخب حکومت آگئی۔منتخب حکومت نے4ہفتے گذرنے کے باوجود بجٹ اجلاس نہیں بلایا۔جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے درمیان شدید اختلافات نے دونوں اتحادی جماعتوں کوازمائش میں ڈال دیا ہے۔اور سزا عوام کو مل رہی ہے۔قانونی طورپر ایک ماہ کے اندر بجٹ اجلاس منعقد ہونا چاہیئے۔دیر بالا،دیر پائین اور دیگر اضلاع میں بجٹ اجلاس منعقد ہوئے بجٹ پاس ہوا۔ منتخب ضلعی حکومتوں نے کام شروع کیا لیکن چترال وہ بدقسمت ضلع ہے جس کی نئی ضلعی اسمبلی کا بجٹ اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔منتخب ضلعی قیادت نے کام شروع نہیں کیا۔ٹی ایم اے کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ٹاون کی یونین کونسلوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔منشیات فروشوں کو کھلی چھٹی مل گئی ہے۔سروس مہیا کرنے والے ادارے واپڈا،پیسکو،پولیس انتظامیہ اور دیگر حکام اس انتظامی خلا سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔چنانچہ شام ہونے سے پہلے منشیات کے عادی افراد مختلف علاقوں میں نکل آتے ہیں اور ہلڑ بازی کرتے ہیں۔گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ جمع ہوگئے ہیں اور عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔بجلی کی غیر اعلانیہ اور ناروا لوڈشیڈنگ سے عوام تنگ آچکے ہیں۔عوام ہر جگہ یہ سوال کرتے ہیں کہ چترال ٹاون کی تین یونین کونسلوں کے عوام کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟۔ٹی ایم او نے ایک ملاقات میں خود کو بے بس قرار دیا ہے۔اس طرح ضلعی پولیس بار بار اپنی کامیابیوں کے حوالے سے بیانات دے رہی ہے۔ٹی ایم او حکام نے نئی منطق یہ نکالی ہے کہ بازار کی صفائی کے لئے تاجروں کو ہردکان پر نیا ٹیکس جمع کرناہوگا۔تجار یونین کے سینئر ممبروں کو اس پر شدید تحفظات ہیں۔تجار یونین کے اراکین کا کہنا ہے کہ ہم نے دینی جماعتوں کے اتحاد کو نئے نئے ٹیکس لگا کر اپنی گاڑیاں دوڑانے کے لئے ووٹ نہیں دیا تھا۔یہ منطق ہرگز نہیں چلے گی۔اندرونی کہانی یہ ہے کہ چترال ٹاون اور بازار کے نام پر13خاکروب بھرتی ہوئے تھے وہ سب کے سب افسروں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔