ریسکیو 1122کی ٹیم زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے چترال پہنچ گئی

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس ) وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر ریسکیو 1122کی ٹیم زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے چترال پہنچ گئی ہے ۔ جہاں وہ ڈپٹی کمشنر چترال کی ہدایت کے مطابق متاثرہ مقامات کوراغ ، بونی ، مستوج ، گرم چشمہ اور چترال خاص و اطراف میں میڈیکل سروسز اور ریلیف کی خدمات انجام دیں گے ۔ جمعہ کے روز چترال پہنچنے کے بعد ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122پنجاب بریگیڈئر ارشد رضا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ حالیہ زلزلہ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں صوبے کے دوسرے اضلاع کے ساتھ ساتھ چترال میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔ اس لئے وزیر اعلی پنجاب نے اپنے مصیبت زدہ چترالی بھائیوں کی مدد کیلئے ریسکیو ٹیم کوخدمات انجام دینے کے لئے چترال بھیج دیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ریسکیو 1122کی تین ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں ۔ جن میں سے ایک ٹیم ڈاکٹر فرحان کی قیادت میں چترال میں کام کرے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہمارا بنیادی کام ریسکیو کرنا ہے ۔ تاہم زلزلے کے بعد سفر کرکے یہاں پہنچنے کے بعد یہ معلوم ہوا ۔ کہ یہاں ریسکیو کا کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم ہماری ٹیم میڈیکل کی سہولیات پہنچانے اور ریلیف کے کام میں حصہ لے گی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چیف منسٹر پنجاب کو چترال کے لوگوں سے بہت محبت اور ہمدردی ہے ۔ کیونکہ یہ ضلع اپنی پسماندگی اور دور افتادگی کے باعث تعاون اور امداد کا سب سے زیادہ محتاج ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ میں چترال کے موسمیاتی اور ارضیاتی آفات کے نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں ۔ کہ چترال میں ریسکیو 1122کی ایک مستقل ٹیم ہونی چاہیے ۔ تاکہ خدا نخواستہ آفات کی صورت میں وقت ضائع کئے بغیر لوگوں کی مدد کی جا سکے ۔ اور اس سلسلے میں صوبائی ریسکیو1122کو اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔ تاہم وزیر اعلی پنجاب کو بھی اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا ۔ ڈی جی ریسکیو پنجاب نے کہا ۔ کہ حکومت پنجاب کی طرف سے چترال کے متاثرین زلزلہ کیلئے کمبل ،خیمے ادویات، خوراک اور دیگر اشیاء چترال بھیج دیے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال کے حوالے سے چیف منسٹر پنجاب کو تمام حالات سے آگاہ کیا جائے گا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔