چرون متاثرین زلزلہ انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں ہیں

چترال ( نمائندہ چترال ایکسپریس ) چروں اویر کے متاثرین نے کہا ہے کہ اس گاؤں پر جو قیامت ٹوٹ پڑی ۔ وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ گاؤں موہنجو داڑو کے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ۔135گھرانوں پر مشتمل گاؤں میں 120گھر مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے ہیں ۔جبکہ پندر ہ گھر اگرچہ نہیں گرے ۔ لیکن وہ بھی رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ متاثرین کی بڑی تعداد ایک جماعت خانے میں پناہ لے رکھی ہے ۔ جن میں مردو خواتین اور بچے سب شامل ہیں۔ یہ متاثرین انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں ہیں ۔ ایک مقامی سوشل ورکر ناصرالدین نے میڈیا کو بتا یا ۔ کہ لوگ اس حد تک بے بس ہو گئے ہیں ۔ کہ اُن کو اپنا مستقبل کچھ نظر نہیں آتا ۔ گھر بار تباہ ہو گئے ۔ روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ سردی اور بارش نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔ جبکہ مزید تکلیف دہ دن آنے والے ہیں ۔ اُن کے پاس کھانے کے برتن ، پہنے کے کپڑے اور بسترے تک سب زلزلے کی نظر ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے بتا یا ۔ کہ کچھ لوگوں نے مقامی سکول میں پناہ لینے کی کوشش کی ۔ لیکن سکول انتظامیہ نے انہیں وہاں پناہ نہ لینے دی ۔ اس لئے لوگ شدید سردی میں خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ لیکن گذشتہ رات برفباری کی وجہ سے تمام خیمے بیٹھ گئے ۔اور متاثرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس لئے کئی متاثرین مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ متاثرین کے ساتھ فوکس ہیو منٹرین اسسٹنس ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ، الخدمت فاؤنڈیشن ، اسلامک ریلیف نے بروقت اور بھر پور امداد پہنچائی ۔ جن میں خیمے ، خوراک ، وغیرہ شامل تھے ۔ جبکہ حکومت کی طرف سے پچاس خیمے ،فی گھرانہ دو کلو چنا ، تین کلو چاول دو کلو گھی وغیرہ شامل تھے ۔ جس سے متاثرین کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔ انہوں نے حکومتی امداد کو مایوس کُن قرار دیا ۔ ناصر الدین نے کہا ۔کہ اس وقت متاثرین کو فوری طور پر شیلٹر ، جلانے کیلئے لکڑی یا گیس اور بستروں کی اشد ضرورت ہے ۔ ایک اور سوشل ورکر اختر حسین نے بتایا ۔ کہ لوگ حکومت سے بہت مایوس ہو گئے ہیں ۔ اگر مختلف این جی اوز لوگوں کی مدد نہ کر یں۔ تو کئی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں ۔ اب بھی لوگوں کا انحصار این جی اوز پر ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ بچ جانے والے مال مویشی بھی متاثرین کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ مویشی خانے گر چکے ہیں اور اُن کیلئے خوراک دستیاب نہیں ۔ انہوں نے انتظامیہ سے متعلق اس امر کا اظہار کیا ۔ کہ وہ خود بھی کچھ نہیں کر رہی ۔ اور دوسرے غیر سرکاری ا دارے جو متاثرین کی مدد کر رہے ہیں اُن کو یہ کہہ کر امداد دینے سے روکا جا رہا ہے۔کہ اس گاؤں میں بہت زیادہ امدادی سامان تقسیم کیا گیا ہے ۔ جو کہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ اُنہوں نے کہا ۔ کہ نفسیاتی طور پر زلزلے کے خوف سے لوگ اب بھی باہر نہیں نکلے ۔ اُن کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں ۔ یہ لوگ اب اس اُمید کے سہارے زندہ ہیں ۔ کہ اُن کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹانے میں اُن کی مدد کی جائے گی ۔ یہ خود تو اپنے شکستہ و منہدم مکانات کے ملبے کے نیچے سے اپنے سامان کی باقیات نکلنے کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔