دھڑکنوں کی زبان……’’مکتب کی کرامات‘‘

…….محمد جاوید حیات……

ماں نے کہا تھا جھوٹ بولنے سے زبان پہ دانہ نکلتاہے،جب مجھے مکتب لے جانے کی باتیں ہورہی تھیں سہمتا جارہا تھا۔میں نے کہا استاد بہت عظیم ہوتا ہے۔۔۔ماں نے کہا استاد نسوار نہیں ڈالتا۔شاید اس لئے کہا تھا کہ میرے ابو نسوار ڈالتے تھے۔۔۔میں استاد کو شاید باپ کی طرح سمجھتا تھا۔ایسا کہ ہر غلطی پر درگذر کرے۔میں نے پوچھا تھا امی کیا استاد نسوار ڈالتا ہے۔ماں نے کہاتھا۔نہیں استاد نسوار نہیں ڈالتا،سگریٹ نہیں پیتا جھوٹ نہیں بولتا۔اس کے کپڑے اجلے اور صاف ستھرے ہوتے ہیں۔استاد کے سامنے سرخود بخود جھکتاہے۔ایسے ایسے ماں نے استاد اور مکتب کی ایسی ایسی کرشمات گنوائیں کہ میں حیران بھی ہوا سہمتے سہمتے نقطہ بھی بن گیا۔گھر میں بوڑھے بڑے کہنے لگے کہ میں سکول جانے سے ڈرتے ڈرتے پتلا ہوتا جاتا ہوں۔میں نے کہا تھا کہ وزیراعظم ،صدر،جنرل،ڈاکٹر،انجینئر سب مکتب سے نکلتے ہیں۔میرے دل میں صاعقے کی طرح خیال آیاتھا کہ یہ بُرے لوگ،یہ مغرور لوگ کہاں سے آتے ہیں۔میری کلاس میں جب پہلی دفعہ استاد آیا تو میں نے اس کے کپڑوں کو غور سے دیکھا بہت صاف ستھرے لگے۔میں سہم گیا،مجھے استاد ڈراونالگا۔۔۔۔وہ ابو کی طرح باتیں نہیں کرتا تھا اس نے کہا کہ شور نہ کرو،گرجدار آواز میں کہا ’’تمہارے کان کھینچے جائیں گے‘‘میں تڑپ کے رہ گیا۔مجھے استاد بہت عجیب مخلوق لگا میں استاد کے قریب نہیں جاسکتا تھا میری دنیا ہی بدل گئی تھی۔کلاس روم میں موت جیسی خاموشی طاری تھی۔اس نے یہ بھی کہا کہ ٹوپیاں سیدھی رکھو۔میں نے اندازہ کرلیا کہ بغیر ٹوپی کے کوئی بچہ سکول کا بچہ بھی نہ لگے۔۔۔۔ہمارے کپڑے کالے تھے۔مگر ہمارے استاد کے سفید تھے۔ہمارے استاد کی اپنے کپڑوں کے بارے میں اپنی مرضی تھی۔ہم رشک سے کہتے کاش استاد کی اپنی مرضی ہے۔بڑے ہوتے گئے تو کالے کپڑے اچھے نہیں لگنے لگے۔گاؤں کے چھوٹے مکتب سے بڑے مکتب میں آگئے۔اب ہمیں اپنے کپڑوں،بالوں،جوتوں وغیرہ کی فکر ہونے لگی۔راستے میں مجھے بہت سارے بچے مختلف وردیوں میں نظر آتے تو میں تڑپ اُٹھتاکہ یہ کیا ہے۔وہ اپنے مکتبوں میں کچھ اور پڑھتے ہونگے اُن کے شیخ مکتب بھی ہمارے استاد کی طرح نہیں ہونگے استاد کے بارے میں میرا طلسم ٹوٹتا گیا۔میں نے ایک دفعہ دور سے استاد کو نسوار ڈالتے دیکھا۔پھر بہتوں کو سگریٹ پیتے بھی دیکھا۔طلسم ٹوٹا مجھے یقین سا ہوگیا کہ استاد بھی عام انسانوں کی جیسی طبیعت اور مزاج کا مالک ہوتا ہے۔مگر آرزو جنم لینے گی کہ ’’استاد‘‘دور سے بھی’’استاد‘‘لگے لاکھوں کے ہجوم میں بھی’’استاد‘‘لگے۔اپنے وقار سے اپنی پوشاک سے اپنی شخصیت سے۔۔۔۔دیکھو وردی میں وقار ہے۔پولیس وردی اتارے تو ایک عام انسان لگتا ہے۔وہ وردی کے ساتھ اپنا مرتبہ بھی تہہ کرکے میز پہ رکھتا ہے۔فوج بھی ایسا ہے ڈاکٹر بھی ایسا ہے۔دیکھنے والے استاد کوپہچانتے نہیں ہیں۔کیونکہ وہ اپنی پہچان میں نہیں ہوتے۔ان کے یونیفارم ان کی پہچان ہیں۔۔۔میرے عظیم استاد کا کوئی یونیفارم نہیں وہ جب تک اپنا تعارف نہ کرائے اس کو کوئی نہیں پہنچانتا۔میرا استاد شریف ہے ،مہذب ہے اس کی تنخواہ بھی کافی ہے اس کا یونیفارم سفید کپڑے اور کالی یا سبز رنگ کی ’’گاون‘‘ہو۔میرا استاد اس کو پہنے یا کندھے پہ ڈالے یا بازو پہ ڈالے اس کی مرضی ہے۔میرے استاد لہکتے لہکتے آئے۔بازار میں لوگ راستہ دیں،ہسپتال میں ڈاکٹر سلام کریں۔تھانے میں تھانیدارسلوٹ کرے۔چھاونی میں کپٹن مرحبا کہے اور ہاں میری بھی ’’پہچان‘‘ہو۔یہ ’’کالے کپڑے‘‘بدل دئے جائیں۔وہ دیکھو پبلک سکول،ماڈل سکول،وہ ایف سی پی ایس کے بچوں کے یونیفارم نمایاں ہیں۔۔۔۔میری غریبی میری مجبوری ہے۔’’ ’’میری پہچان‘‘کے راستے میں روکاوٹ ہے۔میرا استاد تو غریب نہیں۔۔۔۔حکومت کو یونیفارمیٹی چاہیئے نا!توپھر میرے کالے کپڑے بدل دے یا دوسرے سکولوں سے کہئے کہ کالے کپڑے پہنیں۔۔۔یہ میری محرومیاں کب تک۔۔۔۔یہ میری تسلیاں کب تک۔۔۔۔یہ میری شکستگی کب تک میرا دل شیشے کا ہے چکنا چور ہوجاتا ہے،میں سکول سے فارغ ہوجاؤنگاتو کالج میں مجھے اور ماحول ملے گا۔یہ مکتب کے کرامات عجیب ہوتے ہیں۔میں سب کچھ یہاں سے سیکھنا چاہتا ہوں میرا تجربہ ہوتا ہے اب مجھے اپنی ماں کی باتوں پر یقین ہونے لگا۔وزیراعظم یہاں سے بنتے ہیں۔۔۔میرادل آبگینہ ہے یہ ٹوٹتا ہے چورچور ہوتا ہے۔مانتا ہوں میں شرافت یہاں سے سیکھتا ہوں تہذیب یہاں سے جنم لیتی ہے۔صلاحیتیں یہاں سے ابھرتی ہے ۔میرا استاد کرشماتی شخصیت ہے کھبی جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔مگر اب دور بدل گیا ہے اب مجھے تسلی دینے کی ضرورت نہیں۔مجھے اپنی ’’پہچان ‘‘کی ضرورت ہے۔آج کل پہچان کے تقاضے شخصیت سے شروع ہوتے ہیں۔میرا استاد کہتا ہے کہ کے پی کے کی حکومت نے بہت اچھا قدم اُٹھایا ہے،میرا استاد بہت خوش ہے۔۔۔پھر میرے ابو نے ٹی وی دیکھ کر یہ خوشخبری سنائی کہ میری ’’یونیفارم‘‘ تبدیل ہورہے ہیں۔میں نے چیخ کر کہا کہ مجھ سے پہلے میرے استاد کا یونیفارم تبدیل کرو،خدا را میرے استاد کے لئے سفید کپڑے ،کالی یا سبز رنگ کی گاون بہت ضروری ہے۔خدا رمیرا استاد نمایان ہو۔دور سے دیکھائی دے،یہ زر ق برق یونیفارم والے جو سکولوں کو جاتے ہیں وہ حیران ہوں،غش غش کر اٹھیں،خدا را !میرا پیغام وزیراعلیٰ ،وزیر تعلیم،سیکرٹری تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیم سب کو پہنچادیں،اُنہوں نے میرے خواب کی تعبیر کے لئے گویا ایک اہم میٹنگ کی ہے،میری طرف سے اُن کو ہاتھ چومیں،اُن سے کہنا کہ’’ مکتب کی کرامات‘‘ بحال کریں،دوسرے لوگوں ،دوسرے اداروں کے مرتبے ،اُ ن کے کپڑوں اور اُن کی دولت سے نمایان ہوتا ہے اب ایسا نہ ہو۔۔۔ہم جہاں جائیں نمایاں ہونکے جائیں۔پہلے مکتب میں استاد نمایان تھا،شاگرد نمایان تھا۔کوئی تفرقہ اور کوئی اونچ نیچ نہیں تھی۔اس لئے مکتب کی کرامات بحال تھیں۔استاد کی زیر نگرانی سکولوں میں شاہین پرورش پاتے ،استاد کی تہذیب نرالی تھی ،اس کی شخصیت کراشماتی تھی۔مکتب ایک گھر تھا۔اُس کا ’’آنگن‘‘ٹیڑھا نہیں تھا۔استاد اور شاگرد آنگن کے ٹیڑھاپن کے بہانے نہیں بناتے تھے۔۔۔میری ماں نے سکول جانے سے پہلے بہت ساری باتیں مجھے بتائی تھی۔ماں سچ کہتی تھی کہ جھوٹ بولنے سے زبان پہ دانہ نکلتا ہے،خدا کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں،اگر سارے اداروں میں ایک جیسا ماحول ہوگا تو ’’جوہری ‘‘کو’’ موتی‘‘ڈھونڈنے میں مشکل نہیں ہوگی۔پتہ نہیں میری ماں کو مکتب کی کرامات کا اتنا شعور کیوں تھا۔شاید اس لئے کہ اُس کو مکتب سے اور شیخ مکتب سے توقعات تھیں۔
فقط
جاوید حیات دہم سی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔