داد بیداد…..بنیادی ڈھانچے کی بحالی

………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ……..

بنیادی ڈھانچے کے لئے انگریزی میں انفراسٹرکچر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ موسمیاتی تغیر، عالمی حدت، سیلاب اور زلزلہ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر بلکہ تباہ ہو چکا ہے۔ بعض منصوبے وفاقی حکومت کی عملداری میںآتے ہیں۔ بعض منصوبے صوبائی حکومتوں کی عملداری میں شامل ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے انفراسٹر کچر کی فوری بحالی کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اور اس پر کام بھی جاری ہے۔ خیبر پختونخوا میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر اب تک نہ وفاقی حکومت نے توجہ دی ہے ۔ نہ صوبائی حکومت نے اس پر غور کیا ہے۔ کوہستان، شانگلہ، بونیر، سوات، دیر اور چترال میں 2010سے مسلسل سیلاب آرہے ہیں۔ پہاڑی تودے گر رہے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب سے متاثرہ ا نفراسٹرکچر کو 2012ء میں بحال کیا گیا تھا۔ 2012ء کے سیلاب میں جو انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ اس کی بحالی کا کوئی منصوبہ اب تک سامنے نہیں آیا۔ 26اکتوبر 2015ء کے زلزلے کے بعد مزید انفراسٹرکچر برباد ہوا ہے۔ ضلع چترال میں اس تباہی اور بربادی کی مثالیں جگہ جگہ موجود ہیں۔ واٹر سپلائی سکیموں، نہروں اور سڑکوں کی تباہی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بجلی گھروں، سکولوں، ہسپتالوں اور کالجوں کی عمارتوں میں بحالی کا کام گزشتہ 3سالوں میں شروع ہی نہیں ہوا ۔ وادی کالاش میں رومبور کے مقام بڑانگورو کا پرائمری سکول 2012ء میں سیلاب برُد ہوا۔ بچوں کو خیمہ دیا گیا۔ 3سالوں تک سکول کی تعمیر کے لئے فنڈ نہیں دئے گئے۔ اس طرح کے سکولوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ 2012ء کے سیلاب میں دنین کا پل سیلاب برُد ہو گیا۔ پاک فوج سے کرائے کا پل لے کر عارضی ٹریفک بحال کی گئی۔ تین سال گزر گئے۔ نئے پل کے لئے فنڈ نہیں ملے۔ اس مقام پر ججوں کے گھر واقع ہیں۔ سی اینڈ ڈبلیو کا ریسٹ ہاؤس ہے۔ سرکاری کالونی ہے۔ گرلز ڈگری کالج ہے۔ سینٹینل ماڈل گرلز ہائی سکول ہے۔ پی ایس او کا آئل ڈپو ہے۔ عوام کے لئے نہ سہی سرکاری آفیسروں کی سہولت کے لئے 3سالوں میں پل کی تعمیر کا کام شروع ہو جانا چا ہیئے تھا ۔اس طرح کے 15مقامات ہیں جو لاوارث پڑے ہیں۔ چترال ٹاؤں میں ائیر پورٹ روڈ 3 سالوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے۔ گرم چشمہ روڈ پر ٹاؤن سے 3کلومیٹر شمال میں دو جگہوں پر سڑک سیلا ب میں بہہ گئی ہے۔ کئی سکولوں کی بسیں اس سڑک پر چلتی ہیں۔ ایم پی اے سلیم خان کا گھر اس سڑک پر واقع ہے۔ 400گز سڑک ٹوٹنے کے بعد پرائیویٹ زمین سے ڈرائیوروں نے راستہ بنایا ہے۔ زمین کے کٹاؤ سے 700کے وی کے سرکاری بجلی گھر کو بھی خطرہ ہے۔ اگر اگست یا ستمبر میں فنڈز جاری کئے جاتے۔ تو دسمبر تک 4فٹ بنیادوں کے ساتھ 6فٹ چوڑا اور 400گز لمبا پشتہ تعمیر ہو چکا ہوتا۔ کم از کم پشتے کی دیوار سطح زمین اور پانی کی سطح سے 2فٹ اوپر آچکی ہوتی۔ اپریل تک 10فٹ اونچا پشتہ تعمیر ہو چکا ہوتا۔ ماہ مئی میں پانی کی سطح بلند ہونے سے پہلے سڑک بحال ہو چکی ہوتی۔ اور بجلی گھر کی عمارت کو بھی محفوظ بنا لیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اگلے سال مئی میں دریا کے اندر طغیانی آئیگی اور بجلی گھر بھی سیلاب میں بہہ جائیگا۔ اس طرح کی مثال ریشن اور گرین لشٹ کے مقامات پر مستوج روڈ کی ہے۔ کوہستان، سوات، شانگلہ ، دیر اور چترال جیسے پہاڑی اضلاع میں زمین کے کٹاؤ اور دریا کی طغیانی ماہ مئی سے شروع ہو تا ہے اور اگست تک جاری رہتا ہے۔ سابقہ حکومتوں میں اختیارات ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹیو انجینئر اور مقامی حکاّم کے پاس ہوتے تھے۔ اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا کام فوری طور پر شروع ہوتا تھا۔ 2012ء سے 2015ء تک بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچا تھا۔ اس پر تین سالوں میں کام نہیں ہوا۔ نہریں برباد ہو چکی ہیں۔ واٹر سپلائی سکیمیں تباہ ہو چکی ہیں۔ سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بجلی گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ ان نقصانات کا ازالہ کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ فوری ضرورت اور ایمر جنسی کی بنیاد پر جو کام ہونے تھے۔ وہ نہیں ہوئے۔ مئی 2016میں کم از کم 20واٹر سپلائی سکیمیں ناکارہ ہو جائیگی۔ کم از کم 9نہروں کو مزید نقصان پہنچے گا اور کم از کم 15مقامات پر سڑکیں بلاک ہو جائیں گی۔ دو بڑے بجلی گھر سیلاب کی زد میں آکر برباد ہو جائیں گے۔ گاؤں کے ان پڑھ لوگوں کو نظر آنے والی یہ سکیمیں حکومت کو نظر نہیں آتیں۔ اگر کور کمانڈر لیفٹنٹ جنرل ہدایت الرحمن اور جی او سی میجر جنرل نادر خان نے بروقت نوٹس لیا۔ تو اب بھی وقت ہے۔ مزید تباہی اور بربادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ َ سِول حکومت اور سیاسی قیادت میں اختیارات کی کشمکش پہلے بھی جاری تھی۔ اب لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے ساتھ صوبائی حکومت کی رسّہ کشی بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس کشمکش اور رسّہ کشی میں سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوتا ہے۔ آفت زدہ علاقوں میں انفرا سٹرکچر کی بربادی سے سرکاری گودام ، بجلی گھر اور دیگر تنصیبات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ اس لئے حکومت سے یہ شکوہ ہے کہ ہمارے لئے نہ سہی، اپنی عمارتوں اور سرکاری تنصیبات کو بچانے کے لئے سڑکوں کے پشتے او ر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بحال کرو۔ علامہ اقبال کا مشہور مصرعہ ہے “میرا نہیں بنتا نہ بَن اپنا تو بَن”۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔