احترام انسانیت کا دورِ زوال

…….عبدلولی خان خاموش ؔ (کوشٹ چترال)……

کائنات میں مخلوقات خداوندی کی جو در جہ بندی ہوئی ہے ۔ اسمیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ عطا کیا ہے۔ انسان اس مرتبے کا حق دار اسلئے ہوا کہ اسے دوسری مخلوقات کی نسبت سوچنے ، سمجھنے، محسوس کرنے، عمل کرنے، اچھے اور بُے کی پہچان کرنے، صحیح اور غلط میں تفریق کرنے، اور ایک جامع معاشی اور معاشرتی نظام تشکیل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند کیا گیا ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ انسان فطری طور پر ایک سماجی حیوان ہے۔ کیونکہ انسانیت کی بقا اجتماعیت میں ہے۔ جب تک ایک مکمل معاشرتی نظام کی تشکیل عمل میں نہیں آتی۔ اس وقت تک دنیا میں انسانی زندگی کا وجود ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے افراد نے اپنے لئے ایک معاشرتی اور سماجی نظام کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اصول اور قواعد و ضوابط تشکیل دئے۔ تاہم دنیا میں جتنے بھی اورجس قسم کے بھی معاشرتی اور سماجی نظام موجود ہیں ان سب میں رنگ ، نسل اور مذہب سے ہٹ کر ایک قدر مشترک ہے۔ جو انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کر تی ہے۔اور وہ ہے احترام انسانیت۔ یہ وہ عظیم جذبہ ہے جسکے بغیر دنیا کا کوئی معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔ جس معاشرے میں احترام انسانیت کا جذبہ فروغ پائے گا ۔ اس معاشرے کے لوگوں میں بے شمار انسانی خوبیاں پیدا ہونگی۔ جن میں اخلاق ، رحمدلی ، خیر خواہی، رواداری، ہمدردی، حسن سلوک، شرافت اور تواضع جیسی خصوصیات سر فہرست ہیں۔ اسکے برعکس جس معاشرے سے احترام انسانیت اٹھ جائے تو وہ معاشرہ بڑی تیزی سے زوال پذیر ہو گا۔ اور ایسا معاشر ہ نفرت، خود غرضی، حسد، انتقام، تصادم، عدم تعاون، غرور، انانیت، تعصب اور بے رحمی جیسی خصوصیات کا گہوارہ بن جائے گا۔ جب معاشرے میں ایسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں تو عدم برداشت کا جذبہ جنم لیتا ہے ۔ مادہ پرستی، عنانیت اورذاتی مفادات کی دوڑ میں انسان ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ انسان نہ صرف اپنی اخلاقی بلکہ مذہبی اقدار کو بھی ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ تب معاشرہ مجموعی طور پر بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور انسان اشرف المخلوقات کے دائرے سے نکل جاتاہے ۔
دین اسلام دین کامل ہے۔ جس نے ایک ایسے معاشرتی نظام کی تشکیل کی ہے جسے اگر تمام معاشرتی بیماریوں کیلئے اکسیر اعظم (Panacea of all social meladies)کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اسلا م کی تعلیمات ہمیں بہت ہی بنیادی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا درس دیتی ہیں: – ‘ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘’والدین اور اساتذہ کا احترام کرو’‘‘ماں کے قدموں تلے جنت ہے’‘‘کسی بے گناہ کو قتل کرنا گویا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے’ ، ‘نشے اور جوے سے بچو ‘ ، ‘غیبت، بغض ، کینہ اور چغل خوری سے بچو ‘ ، ‘ اے اللہ مجھے حسد کرنے والے سے بچا ”بخل اور کنجوسی سے بچو‘‘غریبوں ، مسکینوں اور ناداروں کی مدد کرو اور یتیموں سے ہمدردی اور شفقت کرو،’زکوٰۃ دو” ہمسایوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ’ ، ‘چوری کرنا اور کسی پر تہمت ؍ بہتا ن لگا نا گنا ہ ہے ‘، ‘غرور اور تکبر سے بچو ‘، ‘ ایک دوسرے کو بُرے القابات اور ناموں سے نہ پکارو ‘، ‘ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچو ‘، ‘زنا کے قریب بھی مت جاؤ ‘ ، ‘ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برائی اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو ‘، ‘بھائی چارے کو فروغ دو’

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔