شہداء کے دیس میں۔۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔

……ارشاد اللہ شادؔ ۔۔۔ بکرآباد چترال……

یہ کیسا جنگل ہے۔۔ ۔جہاں کوئی درخت نہیں ۔۔۔ درختوں پر کوئی شاخ نہیں۔۔۔ شاخوں پر کوئی پھول نہیں۔۔۔ پھولوں پر کوئی پتی نہیں۔۔۔ اور پتیوں پر کوئی قطرہ شبنم نہیں۔۔۔ بتائے تو سہی۔۔۔ ! یہ کونسا علاقہ ہے کہ۔۔۔ تا حد نظر آسمان پر سیاہ خاموشی کا راج ہے۔۔۔ کسی پرندے کی آواز ہے۔۔۔ نہ کسی جانور کی پکار ۔۔۔ نہ بلبل کا ترنم ہے ۔۔۔ نہ کوئل کی چہکار۔۔۔ نہ شیروں کی گرج ہے۔۔۔ اور نہ ہاتھیوں کی چھنگاڑ۔۔۔ یہ کونسی زمین ہے۔۔۔ جہاں ہر طرف۔۔۔ ایک مخصوص لہو کی ۔۔۔ بُو رچی ہوئی ہے۔۔۔!۔۔ شاید ہم اس جگہ کو تمام عمر پہچان سکیں۔۔۔
یہ ارض پاک ہے ۔۔۔ جس کاہر پھول ٹہنی سے جدا ہے۔۔۔ جس کی ہر شاخ درختوں سے جدا ہے۔۔۔ اور جس کا ہر درخت آندھیوں کی آماجگاہ ہے۔۔۔ ذرا۔۔۔ سونگھئیے ۔۔ یہ اچانک تازہ تازہ لہو کی مانوس سی مہک کہاں سے آرہی ہے۔۔۔ جس کی مہکار بتا رہی ہے۔۔۔ کہ یہ کسی مظلوم بچوں کا خون ہے۔۔۔ جی ہاں۔۔! یہ مقدس شہید بچوں کا خون ہے جن کو 16دسمبر 2014کو شہید کیا گیا تھا۔۔۔اور شہید کرکے بے دردی سے اس ’’سکول‘‘ میں ۔۔۔ اس دہشت کے ماحول میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔ اس کا خون پکار رہا ہے کہ اے ظالموں ۔۔۔ یقینََا تمہارا یوم حساب قریب ہے۔۔۔ یہ زمین آخرکب تک سانحات برداشت کرتی رہے گی۔۔۔ کب تک اس کی مٹی لہو مانگتی رہے گی۔۔۔ اور کب تک ہم ظالموں کی پیاس بجھانے کیلئے اپنی قیمتی خونوں کو بڑی ارزانی کے ساتھ تشتریوں میں رکھ کر پیش کرتے رہیں گے۔۔۔ ایک تسلسل ہے۔۔۔ ایک سلسلہ خونچکاں ہے۔۔۔ بڑی ہی نا قدری کے ساتھ۔۔۔ نا معلوم کب تک جاری رہے گا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟

غدّار وطن ، غدّار نبی، اس پاک وطن میں کیوں کر ہیں
میں پوچھتا ہوں یارانِ وطن ، یہ خار چمن میں کیوں کر ہیں

تم سانپوں کے رکھوالے ہو کیوں دودھ پلاتے ہوں ان کو
یہ پاک وطن کے دشمن ہے تم دوست سمجھتے ہوں جن کو

ہمت تو کرو شادؔ ذرا یہ بیڑا ڈوبنے والا ہے
تم دیکھتے ہو دجالوں کا اس دنیا میں منہ کالا ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔