صدا بصحرا…..تجاوزات کے خلاف اقدامات

………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی…..

ؔچترال ٹاؤن کے اندر پوسٹ آفس جانے والی سڑک کا 4فٹ حصہ ایک سرکاری محکمے نے نئی تعمیرات کی زد میں لا کر قبضہ کیا ہے۔ محکمہ طاقتور ہے۔ اس لئے عوام کے کسی نمائندے کی مجال نہیں کہ متعلقہ محکمے سے سرکاری سڑک کو وا گزار کرا سکے۔ اس طرح کی تجاوزات ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ چترال کی ضلعی حکومت کہتی ہے ۔کہ ہر تاجر اپنی دکان کی پیمائش کے کاغذات دکھائے ۔ورنہ دکان مسمار کر دی جائیگی۔ تاجر برادری کہتی ہے۔ کہ 1913ء میں خریدی گئی دکان کی سند محض دکان کے حوالے سے بنائی گئی ہے۔ حدود اربعہ دیا گیا ہے۔ پیمائش نہیں دی گئی۔ضلعی انتظامیہ کہتی ہے۔ یہ تجاوزات کی تعریف میں آتی ہے۔ تاجر برادری کہتی ہے کہ چترال میں پٹواری کا نظام 1960ء میں بھی نہیں آیا ۔ 1980ء میں بھی نہیں آیا۔ 1990ء میں بھی یہ سسٹم نہیں آیا۔ ہماری سندات میں پیمائش، فرد نمبر اور انتقالات نہیں ہیں۔ اگر سرکار کہتی ہے کہ پوسٹ آفس روڈ پر سرکاری محکمے کی طرف سے سڑک پر قبضے کی طرح کسی تاجر نے سڑک کے کسی حصے پر قبضہ کیا ہے۔ تو سرکاری محکمہ اپنا نقشہ دکھائے۔ اس نقشے کے مطابق سڑک کی پیمائش کرے۔ نالیوں کی پیمائش کرے۔ جہاں اور جس جگہ کسی تاجر نے موجودہ سرکاری محکمے کی طرح تجاوز کیا ہو۔ اس کو مسمار کیا جائے۔ سرکاری سڑک اور نالی کا نقشہ دکھانا سرکاری محکمے کی ذمہ داری ہے۔ یہ تجار کی ذمہ دار نہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس بہانے سے ضلعی انتظامیہ بعض جگہوں کو کراچی کی طرح “نو گو ایریاز”بنا کر بھتہ لینا چاہتی ہے۔ ہم عدا لت جائیں گے۔ ہڑتال کریں گے۔ مگر بھتہ نہیں دیں گے۔ چترال کو کراچی کی طرح بھتہ خوروں کے حوالے نہیں کریں گے۔ بعض سیاسی اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایک سازش کے تحت چترال میں بد آمنی پیدا کی جارہی ہے۔ خدا انہیں عمر اور صحت دے۔ جنر (ر) افتخار حسین شاہ نے پشاور میں جی ٹی روڈ کو تجاوزات سے پاک کیا۔ دکانوں اور گھروں کے ساتھ مساجد اور مزارات کو بھی مسمار کر وایا۔ انہوں نے یہ کام دکانداروں اور مولویوں کی سندات کو دیکھ کر نہیں کیا۔ انہوں نے سرکاری نقشہ سامنے رکھا۔ اس نقشے میں سڑک اور نالیوں کی چوڑائی لکھی ہوئی تھی۔ نقشے میں جہاں جہاں تجاوزات نظر آئے۔ ان کو بلا امتیاز مسمار کروا دیا۔ اگر وہ دکانداروں اور مولویوں سے سند مانگتا۔ تو یہ بھتہ کلچر ہوتا۔ ہر شخص اپنی سند کے ساتھ بھتہ دے کر جان چھڑا لیتا۔ اور آپریشن متنازعہ ہوتا۔ جس طرح پی ٹی آئی کے دور میں گھنٹہ گھر کے اندر متنازعہ آپریشن کیا گیا۔ ایک بے گناہ شہری کو سرکاری کارندوں نے جان سے مار دیا۔ تجاوزات کے خلاف اقدامات کی اہمیت سے پشاور کے اندر کسی کو انکار نہیں تھا۔ مگر اس کا طریقہ کار افتخار حسین شاہ کے دورکی طرح صاف، شفاف اور بھتہ کلچر سے پاک ہونا چاہیئے تھا۔ چترال کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ چترال کے لوگ پرامن لوگ ہیں۔ شریف لوگ ہیں۔ عموماً پر امن اور شریف ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ حالانکہ چترال کے لوگ ضرورت کے وقت پر تشدد ہنگاموں کے لئے بھی بد نام ہیں۔ 1948ء سے 1970ء تک جن افسروں نے مشرقی پاکستان میں نوکری کی۔ ان میں سے بعض کی تحریریں شائع ہوئی ہیں۔ ان کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگ بھی چترال کے لوگوں کی طرح شریف اور پر امن لوگ تھے۔ مغربی پاکستان سے جانے والے آفیسروں نے اس شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ تو مشرقی پاکستان کے شریف اور پر امن عوم نے بھی ہتھیار اٹھایا۔ پھر اس کا جو نتیجہ ہوا۔ سب نے دیکھ لیا۔ ضلع چترال کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس وقت چترال کا ایم این اے مشرف لیگ کا ہے۔ دو ایم پی ایز پیپلز پارٹی کے ہیں۔ ضلع ناظم جماعت اسلامی کا ہے۔ دو تحصیل ناظمین اور ضلع نائب ناظم جمعیت العلمائے اسلام (ف)سے تعلق رکھتے ہیں۔ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور مرکز میں ن لیگ بر سر اقتدار ہے۔ اسلئے چترال کا ضلع یتیم اور لاوارث ہے۔ ترقیاتی کام 3سالوں سے بند پڑے ہیں۔ اوپر سے تجاوزات کا نیا شوشہ ڈال کر عوام کو حکومت سے لڑایا جا رہا ہے۔ بد آمنی کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ اگر ضلعی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف اقدامات میں مخلص ہے تو اس کا آغاز سرکاری نقشے سے کرے۔ سرکاری نقشہ نکال کر پہلے پوسٹ آفس روڈ پر سرکاری محکمے کی طرف سے سڑک پر قبضے کو چھڑائے۔ اس کے ساتھ نقشے کی مدد سے آگے بڑھے۔ تاجر برادری ساتھ دے گی۔ عوام بھی ساتھ دیں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔