وادی لاسپور کے پولو پلےئیر مسائل سے دوچار۔

سید ناصر علی شاہ

شندور سطح سمندر سے 12200 فٹ بلند وادی لاسپور اور وادی غذر کے درمیان واقع ہے جو اپنے خوبصورتی اور دلکش تالاب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے ہر سال جولائی کے مہینے میں باہر سے سیاح بھی اس کی خوبصورتی اور دلکش میلے سے محضوظ ہونے کے لیے آتے ہیں جو چترال اور گلگت کے درمیان فری اسٹایل پولو کھیلا جاتا ہے اور اس کی خوبصورتی کو مزید رنگ بخشتے ہیں۔
تاریخ اس بات کی سب سے بڑی گواہ ہے کہ شروع میں وادی لاسپور کے کھلاڑی آپس میں ٹیم بناکر شندور میں پولو کھیلتے تھے موسمِ بہار شروع ہوتے ہی وادی لاسپور کے لوگ اپنے مویشاں چرانے کے لیے شندور لے جاتے اور جولائی کے مہینے میں پولیو کا انعقاد کرکے خوشیاں مناتے اور خوشیاں بانٹتے تھے یہ وسیع میدان قبل از تاریخ مڑان شال تک وادی لاسپور کا حصہ ہے ۔ وادی لاسپور کے لوگ شندور کے مشرقی حصے میں کوکوش کے جنگالات تک استفادہ کرتے آئے ہیں وہاں سے لکڑیاں لاکے موشی خانے بنائے ہیں اور وہاں 60 گھرانے بھی آباد ہے اور یہ کھلا میدان شروع سے ان کا حصہ اور چراگاہ رہا ہے ۔وادی لاسپور کی شندور کے ساتھ تاریخی،سیاسی اور ثقافتی وابستگی برسوں سال پرانی ہے مڑان شال سے آگے کا حصہ وادی غذر کا ہے جس کے بھی سب قائل ہیں۔
وادی لاسپور کے کھلاڑیوں نے بعد میں غذر والوں کو بھی کھیلنے کی دعوت دی وہ بھی کھیلنے کے لیے آتے اور اسی طرح وادی لاسپور اور وادی غذر کے درمیان پولو مقابلہ ثقافت اور روایت بن گئی۔اپنے ہی خرچے سے گھوڑے پالتے اور اس پروقار میلے کا انعقاد کرتے تھے دونوں اس میلے کو پھندیک اور غاری نسیک کے نام سے مناتے تھے جس کی وجہ سے ان کے درمیان محبت بڑھتی گئی ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے کا نیا دور شروع ہوا۔اس ثقافت کو فروغ دے کر لوگوں کے لیے تفریخ کا موقع د ے کر نیز سرکاری اہمیت دلوانے تک وادی لاسپور اور وادی غذر کے لوگوں کا بڑا ہاتھ ہیں ۔1906 ؁ میں کھلاڑیوں کو سرکاری طور پر مراعات8000 روپے دینا شروع ہوا جو بعد میں 25000 سے 40000 تک سرکاری طور پر allowance ملنے لگے مگر دو تین سالوں سے شندور کو متنازعہ بناکر کھلاڑیوں کو مراعات دینا بند ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے نہ ثقافت کو نقصان پہنچ ر ہا ہے بلکہ کھلاڑیوں کو بھی مسائل سے دوچار کردیا ہے اس دور میں اپنے خرچے سے گھوڑے پالنا ان کے لیے بہت مشکل ہے ایک گھوڑے کا خرچہ سال میں ایک لاکھ سے اوپر آتا ہے پہلے گھوڑے آمدورفت کے لیے بھی کام آتے تھے مگر اب وہ وقت نہیں رہا اب یہ صرف اپنے ثقافت کو برقرار رکھنے کے لیے پالتے ہیں۔جہاں تک شندور کے متنازعے کا تعلق ہیں اس کے لیے پشاور سے یا وادی غذر کی حمایت میں چلاس سے چلاّنے کی ضرورت نہیں ہیں یہ مسئلہ ہمارا ہے سقافت ہماری ہے چراگاہ ہمارا ہے ہم میں ڈی سی آف چترا ل، ایم پی اے، ایم این اے، کمانڈنٹ آف چترال سکاوٹس ، صوبائی وزیر اعلی ، ٹوریزم کے وزیر اور وزیر اعظیم میاں محمد نواز شریف صاحب کی توجہ طلب کرتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ شندور متنازعہ ہونے کی وجہ سے وادی لاسپور کے کھیلاڑی دو تین سالوں سے مراعات سے محروم ہیں انہیں جلد سے جلد وہ allowance ملنے چاہیے اور شندور میں گلگت اور چترال کے درمیان پولو مقابلہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں وادی لاسپور کی کھیلاڑیوں کو مراعات ملنے چاہیے اور سرکاری ٹیم کی نسبت ڈبل ملنے چاہیے کیونکہ چترال کی فرسٹ ٹیم کی کھیلاڑیوں کو سرکار گھوڑے اور راشن دیتی ہیں جبکہ وادی لاسپور کی کھیلاڑیوں کو اپنے خرچے سے گھوڑے لینا اور پالنا بھاری پڑ رہا ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔