(رُموز شادؔ )’’ترکوں کا اخلاقی تفوّق‘‘

…… (ارشاد اللہ شادؔ ۔۔بکرآباد چترال)…..

عیسائیوں کی سوسائٹی میں جیسی قابل نفرت باتیں تھیں اسی کے بالمقابل ترکوں کی زندگی میں وہ خصلتیں اور خوبیا ں پائی جاتی تھیں جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی تھیں ، قدیم ترکوں کی لیاقت اور عمدہ خصائل کو جب کلیسا کے پیشواؤں اور معلّموں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کا قدرتی طور پر ایسے عیسائیوں کے دلو ں پر اثر ہوا ہوگا جو یونانی کلیسا کے عہدہ داروں کی کی خود غرضی طمع اور خباثت سے متنفر ہوگئے تھے ۔ عیسائی مصنّفوں نے ہمیشہ ترکوں کی تعریف کی ہے کہ ان کی زندگی میں نہایت خلوص ہے اور بڑے جوش عقیدت سے وہ اپنے مذہب کے فرا ئض ادا کرتے ہیں۔ ان کے لباس اور طرز معاشرت میں نہایت متانت اور نفاست پائی جاتی ہے اور ان کی زندگی ایسی سیدھی سادی ہے کہ بڑ ے اور با اختیار لوگوں میں بھی غرور اور نام و نمود کا نشان نہیں ۔ شہنشاہ لیو پولڈ اوّل نے جو سفارت سلطان روم کے پاس ۱۶۶۵ء ؁ میں بھیجی ، تو اس سفارت کے مورّخوں نے ترکوں کے مذہبی جوش اور پابندی وقت سے نماز پڑھنے کی بہت تعریف کی اور لکھا کہ عیسائیوں کو شرم دلانے کیلئے ہم کو اس وقت یہ کہنا ضروری ہے کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ترک اپنے مذہب کے نہایت پابند ہیں اور ان کی یہ عیسائیوں سے کہیں بڑھ کر ہے کہ نماز کے وقت عبادت میں ہمہ تن مصروف نہ ہو اور ادب و تعظیم کی وہ کل علامتیں اس کی صورت سے ظاہر نہ ہوتی ہوں جن علامتوں کا اپنے خالق کیلئے ظاہر کرنا اس کی مخلوق کا فرض ہے‘‘۔
ترکی سپاہ کو بھی اس تعریف کا حصہ ملا ہے ، جس کی وہ مستحق تھی۔ جب چارلس دوم نے سلطان کے پاس سفارت روانہ کی تو سفارت کے سیکرٹری نے لکھا کہ جس وقت ترکی فوج ملک سے گزری تو ملک کے باشندوں کو کوئی شکایت اس قسم کی نہیں ہوئی کہ سپاہیوں نے ان کا مال لوٹا ہو یا ان کو بے عزت کیا ہو۔ جس رستہ سے فوج کا گزر ہوا تو فوج کے گزرنے سے دو یا تین دن پہلے سب شراب خانے مقفّل کر دئے گئے۔ اور ان پر مہریں لگا دی گئیں اور حکم تھا کہ کوئی آدمی کسی سپاہی کے ہاتھ شراب نہ بیچے ورنہ سزائے موت کا مستوجب ہوگا۔
ایسے عیسائی مصنفوں نے بھی جن کو ترکوں کے ساتھ عشق نہ تھا ترکی مسلمانوں کی تعریف و تحسین کا فرض ادا کیا ہے۔ ایک مصّنف جس نے مسلمانوں کے مذہب کی نسبت نہایت سخت توہین کے کلمے لکھے۔ ترکوں کی نسبت لکھتا ہے کہ قرآن کی کیچڑ ( نعوذ با اللہ)میں بھی تم کو مسیحی نیکیوں کے جواہرات بکھریں ملیں گے۔ مسلمانوں کی شریعت اور ان کی تاریخ کو اگر عیسائی دقیق نظر سے دیکھیں گے اور ان پر غور کریں گے تو ان کو غیرت آئے گی کہ مسلمان عبادت اور پرہیزگاری اور خیرات دینے کے کس قدر پابند ہیں ، جس وقت وہ مسجد میں ہوتے ہیں تو کسی محویّت سے خدا کی عبادت و بندگی میں مصروف ہوتے ہیں ۔ پاکیزہ اور تقدس ان میں کسی درجہ ہوتا ہے ، اپنے علمائے دین کے وہ کیسے مطیع ہوتے ہیں ۔ سلطان بھی سوائے اس کے کچھ نہیں کر سکتا کہ مفتی سے فتویٰ لے لے، پنج وقتہ نماز کے خواہ کہیں بھی ہوں اور کسی کام میں مصروف ہوں ۔ مسلمان کیسے پابند ہیں، کس طرح صبح سے رات تک کے روزے مہینہ بھر رکھتے ہیں۔ ان میں آپس میں کس قدر محبت اور سلوک ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ کیسا مخیّر ہے، ان کے شفا خانوں سے جو غریبوں اور مسکینوں کیلئے انہوں نے بنائے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ غیروں کے ساتھ بھی ان کو کس قدر ہمدردی ہے۔ اگر ان کے انصاف اور ان کی پرہیزگاری اور نیکیوں کا خیال کریں۔ تو ہم کو اپنے اوپر شرم آتی ہے کہ خدا کہ خدا کی بندگی اور آپس کے سلوک میں ہم کیسے سست رو ہیں۔ ہم کو اپنی بے انصافیوں پر، اپنے ظالم ہونے اور پرہیزگار نہ ہونے پر شرم آنی چاہیے۔ انصاف(قیامت) کے دن ان کا پلہ ہم سے بھاری رہے گا ۔ بے شک ان کا ایمان ان کی نیکیاں ، ان کی رحمدلی وہ چیزیں ہیں جن سے اسلام کو فروغ ہوا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔