صدابصحرا….بلاول کے انکلز

ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی…….. ؔ. ..

بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کو پَٹڑ ی پر ڈالنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔ اس مشن پر ان کے ڈیڈی ان کے ساتھ نہیں۔ انکی ممی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ ان کے ساتھ جو لوگ ہیں۔ ان کو رائج الوقت اصطلاح میں انکل اور آنٹیزکہا جاتا ہے۔ بلاول جو بات کہتے ہیں۔ انکلز اور آنٹیز کے مشوروں پر کہتے ہیں۔ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا ہے کہ “حکومت رنگ برنگی بسوں اور پلوں پر اربوں روپے ضائع کر رہی ہے”اس طرح کے جملوں میں واہ واہ بہت ہوتی ہے۔ مگر یہ جملے انگریزی محاورے کی رو سے بیک فائر بھی کرتے ہیں۔ اس میں گولی دشمن کو لگنے کی جگہ واپس آکر فائر کرنے والے کو لگتی ہے۔ اس سے پہلے الطاف حسین اور عمران خان کے بارے میں انکلوں کے مشوروں پر بولے گئے جملے بلاول کے لئے مصیبت بن چکے ہیں۔ شریف برادران کے خلاف بولا گیا مذکورہ جملہ بھی انکلوں کی عنایت ہے۔ اور یہ جملہ بہت جلد بیک فائر کرے گا۔ اردو کے صاحب طرز انشائیہ نگار سجاد حیدر یلدرم نے ایک انشائیہ لکھا تھا۔ جس کا عنوان تھا مجھے دوستوں سے بچاؤ۔ اس میں ایسے دوستوں پر طنز کیا گیا ہے۔ جو اچھے بھلے آدمی کے لئے عذاب بن کر اس کے اعصا ب اور کندھوں پر سوار ہو تے ہیں۔ آرام سے جینے اور ڈھب سے کوئی کام کرنے نہیں دیتے۔ اگر میرا بس چلے تو میں بلاول بھٹو زرداری کے دروازے پر ایک تختی لگا دوں۔ تختی کی عبارت یوں پڑھی جائے گی۔ “مجھے میرے انکلوں اور آنٹیوں سے بچاؤ” ۔ سچ پوچھیئے تو شریف برادران، عمران خان ، الطاف حسین اور طالبان بلاول کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر بلاول کو کسی سے خطرہ ہے تو اپنی انکلوں اور آنٹیوں سے خطرہ ہے۔ بلاول ایسا نوجوان ہے جس کا نام سندھ کی مشہور بزرگ شخصیت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ انکی پرورش اور تعلیم و تربیت امریکہ اور برطانیہ کے صاف ستھرے ماحول میں ہوئی ہے۔ انہوں نے جھوٹ، فریب اور دھوکا نہیں سیکھا۔ انہوں نے جنرل ضیاء کا دیا ہوا پاکستان سٹڈیز نہیں پڑھا۔ جنرل ضیاء کا لایا ہوا کوئی بھی نصاب نہیں پڑھا۔ انہوں نے مخالف سیاستدانوں کو بھینس کی چوری کے الزام میں جیل یاترا کرانے کا منظر نہیں دیکھا۔ انہوں نے انتخابات میں کامیابی کے لئے مخالف امیدوار کو اغوا کرانے کا سیاسی طریقہ نہیں سیکھا۔ انکا ذہن صاف ہے۔ وہ پاکیزہ دل و دماغ لے کر صاف ستھرے اور پاکیزہ ماحول سے پاکستانی سیاست میں آیا ہے۔ اسکی بہنیں بھی پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کر کے آئی ہیں۔ اگر انکلوں اور آنٹیوں کو ان سے دور رکھا جائے ۔ تو وہ پاکستانی سیاست کو آلودگیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں صاف ستھری سیاست کو فروغ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ مگر وہ انکلوں اور آنٹیوں کے نرغے میں محصور ہیں۔ فریال تالپور، شیری رحمان، قائم علی شاہ، میاں منظور وٹو، رحمان ملک اور دیگرآنٹیوں اور انکلوں کے پس منظر میں کوئی خدمت، کوئی کام، کوئی ترقیاتی منصوبہ، کوئی فلاحی سکیم نہیں ہے۔ ان کے پاس کیچڑ اچھالنے کا بزنس ہے ۔ اسلئے وہ بلاول کو بھی اس راہ پر ڈال کر اس سپوت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو اس کی تاریخ ڈکٹیٹروں سے شروع ہو کر ڈکٹیٹروں پر ختم ہوتی ہے۔ ایوب خان کا ذکر آتا ہے۔ ضیاء الحق کا ذکر آتا ہے۔ مشرف کا ذکر آتا ہے۔ جمہوری حکمرانوں کا کوئی نمایاں ترقیاتی منصوبہ ، کوئی بڑی سڑک، کوئی ڈیم، کوئی شہر نظر نہیں آتا۔ لے دے کر موٹر وے اور میٹرو بس ایسے منصوبے ہیں جو جمہوری دور میں متعارف ہوئے۔ ان کو جمہوری دور کی یادگار کہا جا سکتا ہے۔ بلاول اگر انکلوں اور آنٹیوں کے نرغے سے باہر آئیں گے۔ تو امریکہ اور یورپ کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل کر دو چار ایسے منصوبے دیں گے۔ جو ان کے بعد بھی یاد رکھے جائیں گے۔ بلاول کو اگر انکلوں اور آنٹیوں کے غلط مشوروں سے بچایا گیا۔ تو اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے بل بوتے پر وہ پاکستان کو بھی استنبول، فرینکفرٹ، لندن، نیویارک اور پیرس کی طرح صاف ستھرے شہر، اُن شہروں میں صاف ستھری سڑکیں اور موٹر وے یا میٹرو بس کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام دینے کی منصوبہ بندی کریں گے۔ وہ امید کی باتیں کریں گے، نئی منصوبہ بندی کی باتیں کریں گے، بہتر نظام، بہتر سسٹم اور بہتر طرز حکمرانی کی باتیں کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تربیت جس پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول میں ہوئی ہے۔ ان کے انکلوں اور آنٹیوں کی تربیت ایسے ماحول میں نہیں ہوئی۔ انکلوں اور �آنٹیوں نے پاکستانی ماحول میں تربیت پائی ہے۔ اسلئے ان کے پاس یرقان زدہ چشمے ہیں۔ ان چشموں کے شیشے سرسبز باغ اور تازہ پھولوں کو بھی زرد اور زردی مائل دکھا تے ہیں۔ رنگ برنگی بسیں، سڑکیں اور پل بنانا برائی کے زمرے میں نہیں آتا۔ کاش بلاول کے ممی ڈیڈی بھی کراچی اور حیدر آباد کے لئے ایسے کام کرتے تو آج سندھ کے ان اہم شہروں پر بھٹو شہید کی پارٹی کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔