دادبیداد……قطر مذاکرات کا نیا دور

……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …..

عالمی طاقتوں نے ایک بار پھر قطر مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے اندر مزاحمتی گروہوں کو ایک میز پر بیٹھا کر افغان حکومت کیساتھ ان کی صلح کرانے کی کو شش شروع کی ہے ۔اور فریقین کو اُمید ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے ۔مگر ہمیں اس کی امید نہیں ہے ۔مسلمان مایوس نہیں ہوتا۔ لیکن مسلمان دن کو رات بھی نہیں کہتا ۔قطر میں افغان مزاحمتی گروپوں کا دفتر کھلوانے کے بعد یہ مذاکرات کا چوتھا دور ہے۔گزشتہ 3 سالوں میں چوتھی بار فریقین کو آمنے سامنے بٹھا یا گیا ہے ۔قطر دفتر کا ماہانہ خرچہ 10 لاکھ امریکی ڈالر ہے ۔اور یہ خرچہ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ملکر برداشت کرتی ہیں ۔اس دفترکے ذریعے مذاحمتی گروہوں کو منی لانڈرنگ اور ہنڈی کے ذریعے سرمایہ فراہم کیا جاتاہے ۔اس سرمائے سے افغا نستان ،پاکستان ،بھارت ، چین اور روس میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں۔چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گرد حملے کی طرح ایک بڑے حملے کی تیاری میں ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں سے لیکر حملہ کرنے والے مزدوروں تک سب کو ملا کر 20 لاکھ ڈالر کا خرچہ آتا ہے ۔اور یہ خرچہ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں برداشت کرتی ہیں ۔اس میں ایجنسیوں کے لوگ اپنا منافع بھی حاصل کرتے ہیں ۔یہ بہت پھیلا ہوا کا روبار ہے ۔اور قطر کا دفتر اس کاروبار کا مرکز ہے ۔ عالمی اداروں کے نزدیک جو معیار ہے اس معیار کی رو سے الف نون نامی گروہ اگر پاکستان ، روس ، چین یا بھارت میں دہشت گردی کرتا ہے۔تو وہ مجاہد ، ہیرو اور قابل ستائش ہے ۔افغانستان کے اندر مسجد ، بازار، جنازہ یا کھیل کے میدان پر حملہ کرے تو مجاہد ہے۔ خدانخواستہ یہ گروہ اگر کسی دوسری ایجنسی کے لئے مزدوری کرتے ہوئے امریکی کا نوائے ،امریکی شہری پر حملہ کرے تو دہشت گرد ہے۔اس کو امریکہ کے حوالے کرنا متعلقہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔دہشت گردی کا پورانیٹ ورک گذشتہ 38 سالوں سے اس اصول پر قائم ہے کہ میرے لئے دہشت گردی کرنے والا مجاہد ہے ۔میرے خلاف دہشت گردی کرنے والا مجرم ہے۔ مشرقی تیمور میں انڈونیشیا کے خلاف مزاحمتی تحریک افغان جنگ کے زمانے میں شروع ہو ئی تھی ۔سنانہ گسماؤاور کارلوس بیلواس مزاحمتی تحریک کے لیڈروں میں نمایاں تھے۔اقوام متحدہ نے استصواب رائے کے ذریعے مشرقی تیمور کو آزاد کر الیا ۔آزادی کے ساتھ ہی مزاحمتی تحریک ختم ہو گئی۔مشرقی تیمور میں امن قائم ہوا ۔وہاں انڈونیشیا نے دہشت گردوں کی فنڈنگ نہیں کی ۔اگر انڈونیشیا دہشت گردوں کی فنڈنگ کرتا ۔تو نئی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک جاری رہتی ۔مگر انڈونیشیا نے دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کی اور امن کو موقع دیا۔ سری لنکا میں تا مل ٹائیگر کی علیحدگی پسند تحریک 10 سالوں تک چلی ۔تامل باغیوں کے پاس جہاز اور ہیلی کا پٹر بھی تھے۔اُن کو باہر سے وافر مقدار میں پیسہ ملتا تھا۔اسلحہ ملتا تھا ۔دہشت گردی کی اعلیٰ تربیت ملتی تھی۔ اُن کو بھی خودکش جیکٹ فراہم کئے گئے تھے ۔وہ بھی مخالفین کو پکڑ کر ذبخ کیا کرتے تھے ۔خوف اور دہشت پھیلانے میں اُن کی مہارت القاعدہ اور داعش کے برابر تھی۔ سری لنکا کی حکومت نے واضح پالیسی اپنائی ۔فوج نے حکومت کا ساتھ دیا ۔تامل باغیوں کے لیڈر کو قتل کرکے تین دنوں تک ان کی لاش نمائش کے لئے رکھی گئی ۔پربھا کر ان کے قتل کے بعد تامل باغیوں کا پورا نیٹ ورک توڑ دیاگیا ۔اس کا میابی کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ادارے ایک ہی پالیسی پر عمل کرتے تھے ۔تحریری پالیسی الگ اور زبانی پالیسی اس کے برعکس نہیں تھی۔قطر مذاکرات کے دوران کاغذات پر جو بھی عبارت لکھی ہو اور جس طرح کا بھی معاہدہ ہو جائے دو باتیں پہلے سے طے شدہ ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کو ملانے والی سرحد بند نہیں ہو گی۔ پاکستان سے بھاگنے والے دہشت گردوں کو سرحد پر بحفاظت افغانستان میں داخل کیا جائے گا ۔افغانستان کے اندر اُن کو وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ تمام سہولتیں فراہم کی جائینگی۔افغانستان سے پاکستان آنے والے دہشت گردوں کو سرحد عبور کرنے میں ہر ممکن مدد دی جائیگی اور پاکستان ،چین ،روس یا بھارت کے اندر دہشت گردی کے لئے ہر قسم کی سہولت مہیا کی جا ئیگی۔تین اہم ممالک کی خفیہ ایجنسیاں یہ ذمہ داریاں انجام دیں گی ۔اس طریقے سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ دہشت گردی کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا ۔اس میں عالمی طاقتوں کا مفاد ہے۔ عالمی طاقتوں نے اس کاروبار میں سرمایہ لگایا ہوا ہے ۔اس لئے قطر مذکرات سے پاکستان کو اچھی اُمید یں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔پاکستان نے کوئلے کی دلالی کی ہے اور کو ئلے کی دلالی میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔شاعر نے لاجواب مصرعہ کہا ہے ” اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے کاموں میں “

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔