بالیم میں ایک شر پسند لابی افواہیں پھیلا کرلوگوں کو گمراہ کرکے انتظا میہ کیلئے مسائل پیدا کرنے کی کو شش کر رہا ہے۔شیر دولہ،ولی خان

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس ) بالیم لاسپور کے زلزلے سے متاثرہ افراد نے کہا ہے ۔ کہ بالیم میں ایک شر پسند لابی علاقے میں نہ صرف امن کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ بلکہ وہ زلزلہ متاثرین کو حکومت کی طرف سے ملنے والی امدادی چیکوں اور ریلیف کے سامان کے بارے میں مختلف افواہیں پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کرنے اور انتظا میہ کیلئے بھی مسائل پیدا کرنے کی کو شش کر رہا ہے ۔ جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ بالیم لاسپور کے رہائشی شیردولہ ،ولی خان اور محمد داللہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ زلزلے سے اُ ن کے گھر بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس بنا پر پٹواری ، پولیس سکاؤٹس اور دیگر کئی اداروں کی نشاندہی پر اُن کو امدادی چیک دیے گئے ۔ جس کیلئے وہ وزیر اعظم نواز شریف صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ چترال کے مشکور ہیں ۔ لیکن مذکورہ بالیم کے مذکورہ شر پسند لابی ایک علاقائی تنازعہ کو بنیاد بنا کر ہمارے خلاف غلط افواہیں پھیلا کر امداد سے محروم کرنے کی کو شش کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اگر ہم زلزلے میں متاثر نہیں تھے ۔ تو سرکاری اداروں کے علاوہ فوکس ، ہلال احمر ، اسلامک ریلیف ، ایس آر ایس پی ، فدا اور دیگر غیر سرکاری اداروں نے شیلٹر سے لے کر راشن تک ہمیں مہیا کی ۔ اور ہمیں مشکلات سے نکا لنے کیلئے کیونکر امداد فراہم کی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔ کہ ہم حکومت اور دیگر مخیر اداروں اور این جی اوز کی امداد کے یقیناًمستحق تھے ۔ جس کی وجہ سے انہوں نے ہمیں ریلیف دی ۔ اور بحالی کیلئے چیک دیے ۔ انہو ں نے کہا ۔ کہ ہم نے کسی کا حق نہیں چھینا ۔ اونہ با لیم گاؤں میں کسی اور کو امدادی چیک دینے کی مخالفت کی ہے ۔ ہم تو یہ کہ رہے ہیں ۔ اگر بالیم میں دوسرے مستحقین امداد سے رہ گئے ہیں ۔ ضلعی انتظامیہ کو اُن پر بھی رحم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر چترال سے اپیل کی ۔ کہ اُن کو مزید مشکلات میں نہ ڈالا جائے ، کیونکہ وہ پہلے ہی سے زلزلے کی وجہ سے متاثر ہو کر پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔ اور ایسی افوہوں پر کان نہ دھرا جائے ۔ جن کا علاقائی عداوت کے علاوہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔