(رُموز شادؔ ) ’’آئین کا جنازہ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارشاد اللہ شادؔ ۔ بکرآباد چترال۔۔۔۔۔۔۔۔

یقیناًآئین پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز ہے ۔ انکی خواہش ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اس ملک میں اسلام ہی کا نظام ہونا چاہیے۔ اور پھر پاکستان کی جمہوری قوتوں نے اسی پاکستان کی اسمبلی کے فلورپر اس پارلیمنٹ کی چھت کے نیچے آئین مرتب کیا جسکو ہم آج 1973ء کا آئین کہتے ہیں جس میں پاکستان کیلئے نظرئے کا معاملہ طے کر دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا کہ اسلام پاکستا ن کا مملکتی مذہب ہوگا۔ جس میں کہا گیا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ جس میں کہا گیا کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے ۔ اسلام کی تعبیر قرآن و سنت سے کی گئی جس پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ لیکن قوانین کی تفصیل اور اس کی جز ئیات کو طے کرنے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی ، یہ آئینی ادارہ ہے اور آج اسلامی نظریاتی کونسل میں ماہرین قانون بھی موجود ہیں، ماہر شریعہ بھی موجود ہیں، تمام مکاتب فکر کی نمائندگی اس میں ہے اور جتنی بھی سفارشات انہوں نے مرتب کی ہیں اسوقت جو سفارشات حتمی شکل میں اسمبلیوں کو اور سینٹ کو پہنچ چکی ہیں یہ متفقہ ہیں ان پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا ہوگا اور آج نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ آئین کے عین مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق اس ملک میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کا آغاز کریں گے اور اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے ہم 23مارچ کو پاکستان کا قومی دن مناتے ہیں اور 14اگست کو ہم پاکستان کی آزادی کا دن مناتے ہیں لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ، بیرونی قوتوں کا جو عمل دخل ہمارے ملک میں اور اس خطے میں شروع ہو چکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ قوتوں کی یہ مداخلت اگر ہماری سرزمین پر ہو تو پھر یہ قوم نہ اپنے آپ کو آزاد قوم کہہ سکتی ہے اور نہ اپنے ملک کو آزاد ملک کہہ سکتی ہے ۔
68 سالوں سے پاکستان اپنے وسائل پر معیشت کی تعمیر نہیں کر سکا ہے ہم اس ملک سے اگر مہنگائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، بیروزگاری ختم کرناچاہتے ہیں، غریب کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ، اگر ملک کو اس مشکلات سے نکالنا چاہتے ہیں ، بیرونی قوتوں کی غلامی سے اگر ہم نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیٖں اقتصادی اعتبار سے ، معاشی لحاظ سے اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا۔اپنے وسائل کی بنیاد پر معیشت کی عمارت کھڑی کرنی ہوگی ۔ اسی بنیاد پر جوہم آج چل رہے ہیں مہنگائی کا شکار ہیں ، عوام سے ٹیکس وصول کر رہے ہیں، عوام پر ایک دباؤ ڈال رہے ہیں ، ایک طرف مہنگائی انکی کمر توڑ تی ہے تو دوسری طرف ہم ظالمانہ قسم کی ٹیکسز غریب عوام کے بدن پر ڈال کر انکی ہڈیاں چور چور کر دیتے ہیں ۔ اس کیفیت میں پاکستان کا ایک غریب انسان جس طرح گزارا کر رہا ہے اس سے اگر ہم نے قوم کو نکالنا ہے تو ہم نے ایک آزاد اقتصادی پالیسی اختیار کرنی ہے۔ آئی ۔ایم۔ ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے اپنے وسائل کی طرف ہم نے جانا ہے اس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پاکستان بنا سکتے ہیں۔ یہ ہماری اوّلین ترجیحات ہیں لیکن یہ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اس ملک میں ایک قوم ہیں ، ۱۹ کروڑ کے پاکستانی عوام صرف ایک بات پر متفق ہیں ۔ ان کے درمیان ایک ہی میثاق ہے اور وہ میثاق ہے 1973ء کا آئین۔اگر یہ متنازعہ ہو جاتا ہے تو قوم کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ۔ ماضی میں بھی جب پاکستان کی سر زمین کو سر زمین بے آئین کہا گیا تھا تو پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ آج بھی اگر اس آئین کو چھیڑا گیا تو پاکستانی قوم کی شیرازہ کو محفوظ رکھنا دشوار ہو جائے گا۔ قوم پر رحم کیجئے اس ملک پر رحم کیجئے ، اس قوم کے شیرازے کو کو یکجا رکھئیے ۔ اور آئین کی صورت میں جو ہمارے درمیان ایک قدر مشترک موجود ہے ایک میثاق موجود ہے اس میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔ فرد واحد کے اختیارات کی بنیاد پر اسکو سبو تاژ نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمارا مستقبل اس سے وابستہ ہے ۔ ہمارا تحفظ اس سے وابستہ ہے ، ہماری سلامتی اس سے وابستہ ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ آئین آئین ہے ہمارے درمیان ایک قدر مشترک ہے ، اسکو زندہ رہنا چاہیے ۔ اور آئین کے اسی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہیے۔ قوانین اسلام کے مطابق ہونے چاہیءں اور اسی بناء پر ہمیں قومی زندگی کی تعمیر کرنی چاہیے اور اپنے مستقبل کو اسی پر استوار کرنا چاہیے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔