چترال ارضی جنت!۔

چترال(قشقار)صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی شمال میں تنگ سر سبز  وشاداب وادیوں  ،برف پوش پہاڑوں،چھوٹے بڑے جھیلوں ،آبشاروں اُبلتے  چشموں،پھلوںاور پھولوں  پرمشتمل حسین وادی کا نام ہے۔پشاور سے چترال کافاصلہ360کلومیٹر ہے۔ اس وادی میں پہاڑوں کی کثرت اورزمین (مٹی) کی قلت ہے ۔اس وادی کےباشندے سیدھے سادھے مزاج کے انتہائی پر آمن ہیں ۔اس وادی کی  سب سے بڑی زبان کہوار(کوہ وار) ہے ۔کہوار چترال  کے علاوہ عذر اور کالام کے کہو باشندوں کی سب سے بڑی بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔یہ علاقہ پیارے ملک پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کسی بھی قسم کے سرداری  نظام سے پاک ہےاور ہر ایک کواپنی  عزت نفس کاتحفظ اوراظہار رائےکی آزادی حاصل ہے ۔اس وجہ سے یہاں نفسیاتی اُلجھنوں سے پاک ،طبیعت کے نرم خو ،  محب وطن اورانتہائی پاکیزہ  دل کے مالک باشندےآباد ہیں۔پاک سرزمین میں  موجودہ اندرونی بد آمنی کے  سنگین دور میں بھی یہ علاقہ مکمل طور پر پُرامن رہا۔پہاڑوں میں سب سے اونچی چوٹی تریچ میر ہے ، یہ اونچی چوٹی  چترال میں داخل ہوتے ہی اپکے استقبال  کے لئے پیش ہونےکے ساتھ ساتھ مختلف وادیوں میں اپنی میزبانی و موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔درےلواری  میں8.75 کلومیٹرطویل ُسرنگ میں کام کورین کمپنی سامبو کے 1زیر نگرانی   تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ جب آپ لواری پاس کےذریعے 45موڑیں  کاٹتے ہوئے ،جنگلات سے بھرپور عشریت وادی سےنیچے اتر کر کہو سرزمین کے سب سے بڑی وادی میں داخل ہوتے ہیں ۔تو  چترال کے حسین گاوں نگر کے سامنے میرکھنی کےمقام پر چترال سکاوٹس کے نوجوان،انگریز دور کے بنی خوبصورت  چھاونی کےسامنے  خوش آمدید کہنے کے بعد،اپنے مناسب ونرم  روئیے کے ساتھ پوچھ گچھ وانداراج  کر کے وادی کی طرف روانہ کردیتے  ہیں۔میرکھنی سے چترال شہرکا فاصلہ تقریباً 61کلومیٹر ہے دریاے چترال کے ساتھ بنی سڑک سے ہوتےہوے،آپ  تقریباً دوگھنٹے میں چترال شہر پہنچ جاوَ گے۔اگر  رات کےوقت اپکی آمد ہو جائے تو راستےمیں آنے والا  اونچائی پر واقع بکر آباد گاوں سے نیچے اترتے  ہوے  برقی قمقموں  کی روشنیاں  آسمان پر ستاروں کی مانند روشنی بکھیرتے،جھلملاتے ہوے نظر آئینگے۔ اگر دن کے  وقت 32 موسم صاف ہو اور بہار کی رُت ہو  تو تریچ میر کی چوٹی اپنی پوری  آب و تاب کےساتھ اپنی دامن میں بچھی سر سبز  اور پھولوں کے خوشبوسے
معطرسرزمین کے ساتھ اپکو خوش آمدید کہے گی۔

قدیم چترال میں سیاحت کےمقاصداور ذرائع  آج کے دور سے بہت مختلف تھے۔ ہمیں قدیم سیاحوں اوراولین اس  وادی میں قدم رکھنے والےپہلی انسانی گروہ  کے بارے میں بڑےوثوق کےساتھ رائےدینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے ہم اس وادی میں قدم رکھنےوالی پہلی انسانی گروہ کو،  خواہ وہ اس وادی کے پہاڑوں کے اوپربالائی گزر گاہوں سےگزر گئی ہوگی یا سکونت اختیار کی ہو گی پہلے سیاح  کا درجہ دے دی جائے تو بہتر ہو گا ۔کیونکہ اس قدیم وادی  کی مشرقی سمت ہمالیہ  سلسلہ میں  واقع بعض وادیاں گنجان جنگلات،  گلیشیر(یخ رواں )اور جھیلوں  سےبھرے پڑے تھے،انکے اثرات اور  نشانیاں موجودہ دریا  سے کافی اونچائی پردریائی ریت(شُغور)  روڑےکی موجودگی سے لگا سکتے ہیں ۔بعد آزاں  موسمی تبدیلیوں کی کی بناءپرگلیشیر پگھلنے کی وجہ سے جھیلیں پانی کا اضافی  بوجھ برداشت نہ کرسکےاور  ٹوٹ کروہی خطےانسانی  آبادیوں  میں تبدیل ہو گئے ۔سلسلہ ہندوکش  معربی سمت پر واقع ہونے کی وجہ سےدھوپ زیادہ پڑتی ہے۔معربی سمت میں  گلیشیر (یخ رواں ) کی کمی نےبعض علاقوں میں  پانی کی شدیدقلت بھی پیدا کی ہے۔   اسےہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تمام قدیم گزرگاہیں اور قدیم باشندے معرب کی جانب آبادتھےاورراستےپہاڑوں کے اپرچوٹیوں سے گزرتے تھے۔مثال کے طور پر بالائی چترال کے انتہائی  قدیم گزرگاہ کر  یم آباد( پرسان، اوژور)سے ہوتے ہوے گزرتی تھی۔ موسمی تبدیلی سے  جھیلوں کے ٹوٹنے اورنشیبی سمت میدانی خشکی کےخطے میسر آنے کی وجہ سےانسانی آبادی نیچے آباد  ہوتی گئی ۔ بعض مورخین اور مبصریں اس وادی کی قدامت اور اولین انسانی قدم کے بارے میں رائے دےکر مختلف قسم کے حوالہ جات سے ثابت کرنے کی کوشش  کرتے ہیں اور میں کم از کم اس وادی میں پہلےآبادباشندوں کےبارے میں  یا زمانے کا تعین نہیں کر سکتا،جب سے انساں اس خطےکی طرف  آیا ہوگا اور انہی گزرگاہوں کے ذریعے سے گزرا ہوگا،کیونکہ یہ وادی انتہائی قدیم تہذیبوں کےدرمیان بڑی گزر گاہ رہ چکی ہے۔ کیونکہ ہمارا تعلق موجودہ آفعانستاں کے ساتھ تھا،وہی راستے استعمال ہوتے تھے۔ وسط ایشائی ریاستوں اور چین کیلئے یقیناًموجودہ تاجکستان کے سرحدی علاقے اور  واخان پٹی سب سے بڑی گزرگاہ رہ چکی ہے۔ چترال سےواخان پٹی تک رسائی کے لئےرابطہ سڑکیں ومختصرین گزر گاہوں کا حامل علاقہ رہ چکا ہے۔اس خطے میں  موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سلطنتوں کی تبدیلیوں کابھی کئی مرتبہ سامنارہاہے۔موجودہ چترال وکہووادی کو  گندھارا تہذہب ،اور سندھ کی قدیم تہذیب ،آرئین سے قبل آباد پیساچا (دردستانی)باشندوںاور زرتشت اوردیگر   تہذیبوں سے جڑکر کسی قدیم  نسل کی  موجودگی و آبادی  کی قدامت کے بارے میں درست  اندازہ لگانا مشکل ہو گا۔کیونکہ ایک انسانی آبادی کو اپنی شناخت زبان اور ثقافت  قائم کرنے میں کافی عرصہ درکار ہوتا ہےجب ہم تحقیق کرکے کسی نہج تک پہنچ کر، ان  باشندوں کی زبان،  تہذیب و تمدن اور بودباش کے بارے میں راےدیتے ہیں۔ تو ہمیں اسے کئی  ہزار سال قبل  زمانے کے بارےمیں سوچنا پڑے  گا ،کہ یقیناً  اان سے قبل بھی باشندوں کی آبادی آبادہوگی۔اس حوالے سے ایک دشواری یہ بھی ہے اور مورخ منشی عزیز الدین اپنی کتاب(تاریخ چترال)میں  اس دشواری کی طرف اشارہ کرتے ہوےکہتا ہے۔”اس وادی کی کوئی  تحریری تاریخ موجود نہیں ہے ،روایتوں اور نقلوں پر پوری قطعیت کے ساتھ یقین کرنا مشکل ہے “البتہ حسرت صاحب کامحرکہ ڈاٹ کام میں چھپامضموں  “چترال میں اسلام  کی آمد”کے مطابق ہوین سانگ نامی ‘چینی سیاح629ء میں یہاں سے گزرتے ہوے پورے علاقےکو مستوج کہا ہے۔ البتہ آثارقدیمہ والوں کی تحقیق کےمطابق اورعام طور پر کھدائی کے دوران  مختلف مقامات پر قبل از مسیخ دور کے قبریں دریافت ہو چکی ہیں ۔ان دریافتوں سے ہمیں اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی، کہ اسے بہت قبل بھی  تہذیب  یافتہ باشندےآباد ہو چکےہونگے ۔ میرے اندازے کے مطابق!اولیں  وہ نا معلوم انسانی گروہ جس کی آمد پہلی مرتبہ اس سر زمین پر ہوئی ہو،اسکو پہلا سیاح قرار دینےکی جرات کرتا ہوں ،اور میری راے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ،کیونکہ یہ وادی پہلی گزرگاہ اور بعد  میں مستقل آبادی رہ چکی ہے۔ مارکوپولو کی  کتاب Marco Polo  The  Travelsمیں ۱۲۷۳ءکوبدخشان سےجنوب کی طرف”پاشیا “علاقے تک سات دنوں کی مسافت کا ذکر کر چکا ہےاور اس خطےکوانتہائی گرم علاقہ بھی قرار دیا ہے ۔ کشمیر کے  بارے میں  تذکرہ   کرتے ہوےکہتا ہے کہ” پاشیا” سے اس طرف ملک کشمیر کا علاقہ شروغ ہوتا ہے۔میری دانست کہتی ہے کہ ہو سکتا ہے” پاشیا” علاقہ موجودہ”پشاور”ہی ہو۔اس نے کشمیر کا فاصلہ سات دنوں کی مسافت قرار دی ہے،لیکن کشمیر کے بارے میں مکمل طورپر معلومات فراہم کی ہے ۔اس طرف سفر کرنے کسی دریا کو پار کرنے کہیں ٹھرنےکا ذکر نہیں کیا ہے ۔مارکو پولو کے مطابق بدخشان کےراستےسےبارہ دن سفر کرکے واخان پہنچ جاتاہے ۔ممکن تھا کہ اگر سیاح مارکوپولو وادی چترال  سے گزرتا تو شاید اس خطے کے بارےمیں عظیم سیاح مناسب راے دے دیتا اور ان معلومات کی روشنی میں  ہم وثوق کے ساتھ اس وادی کی قدامت کے بارے راے دینے میں ہمیں  آسانی پیدا  ہوجاتی۔مارکو پولو اپنی کتاب میں اس حطےکو’بلور”کہا ہےاوروخشی باشندوں کوکچے گوشت کھانےوالاقراردے کران کے بارے میں بھی تذکرہ کیا ہے۔حسرت صاحب کے مطالعے کے مطابق مارکوپولو کے اس رائے کی تصدیق ہوتی ہے ،کہ جب آریائِی (Arian)نسل کے لوگوں کی ایک گروہ وسط ایشیاء سے ان قدیم گزرگاہوں کےذریعےدردستان (موجودہ چترال) میں داخل ہوتے ہیں ،تو اس وقت یہاں بہت قدیم باشندے آباد تھے۔یہ باشندے ِپساچا (Picsacha دردستانی((Dardistani وخشی باشندہ کہا گیا ہے ۔انکی زبان پساچی Pisachiداردک (Dardic)تھی ،اس  زبان کو خطے کے قدیم زبان مانی جاتی ہے ۔گریژین کے مطابق   داردملک (Dard Country) اس خطے(دیر،کوہستان،اور گلگت کے علاقے) کے تمام پہاڑی علاقوں کو ہندوکش اور انڈیا کے درمیان سرحدی علاقہ قرار دیا ہے۔آریائی باشندوں کی زبان سنسکرت تھی تو لہذا پساچی اور سنسکرت کی ملاپ سے ایک الگ زبان وجود  میں آئی ہوگی ۔یقیناً پراکرتی زبان پر مقامی زبان کے اثرات خارجی زبان کے مقابلے میں زیادہ ہونگے۔یہ پہاڑی خطہ آج بھی دفاعی لحاظ سے اہم علاقہ ہے اورقدیم  زمانے میں بھی اسکی اہمیت  قدیم گزرگاہ ہونے کی وجہ سے قائم رہی ہے۔ اسکے بعداس اہمیت کے پیش نظرمختلف قسم کے سلطنتوں کایہ پہاٰڑی  خطہ زیراثر آتا رہاہے۔اس بناءپر یہ قدیم زبان ترکی،فارسی،ہندی ،اردواور انگریزی سے اثر لیتی رہی اور آج ان پہاڑوں کے درمیان  کوہ یا کھو میں رہنے والے باشندوں کی سب سے بڑی زبان کھوار(کوہ وار) کی شکل میں موجود ہے۔آریائی باشندےان پہاڑوں کے بیچ تنگ اور گنجان جنگلات والے  وادیوں میں محصورہو کرباہرنہ نکل سکے ،اور اس علاقے کےبالائی حصوںموڑکہو، تورکہو،پرواک اور پرکوسپ میں آباد  ہوکرآہستہ آہستہ زیریں وبالائی  حصے کے پورے وادیوں اور گلگت تک پھیل گئے ۔مذکورہ بالا تمام علاقوں میں  پرانے زمانے کی قبریں دریافت ہو چکے ہیں ۔آریائی باشندے مذہب کے لحاظ سے مظاہر پرست تھے جو کہ آجکل کیلاش قبیلوں میں یہ مذہب اپنی اصلی شکل میں موجود ہے۔آریئن(Arian) نسل کے آنے کاسلسلہ ۲۵۰۰قبل از مسیخ سے لیکر ۱۰۰۰ قبل از مسیخ تک جاری رہا۔ جب مارکوپولوواخان سے موجودہ تاجکستان کے سرحدی علاقے سےہوتے ہوے پامیر پہنچتا ہے ،تو اس خطے کو “بلور”کہتا ہے۔مارکوپولو  اپنی کتاب میں اس خطے کی نشاندہی اس طرح کی ہے۔”پامیر سے شمال مشرق اور مشرق کی طرف علاقہ کو بلور کہتے ہیں ۔وہاں تک سواری کی مسافت چالیس دن ہے ,زاد راہ ساتھ لینا ضروری ہے کیونکہ اسکا راستہ پہاڑوں،ڈھلوانوں،کھائیوں سے گزرتا ہے ۔وہاں کےباشندےوخشی ہیں اور برے لوگ ہیں “اس کتاب کی روشنی میں تحقیق کرنے والے(Henry Yule ,Henry Coridier book name  “the book ser markopolo”) محققین اس کی نشاندہی کردہ خطے کی وظاحت کرتے ہوےان علاقوں کو موجودہ چترال،گلگت اور ہنزہ قرار دے رہے ہیں ۔لفظ “بلور”بلحاظ لغت  فارسی زبان کا لفظ ہےبلور اردو میں “بالا”اونچےبالائی ،اوپری وعیرہ کو کہتے ہیں ۔  کہوارزبان میں (بلوغ )  گھر کے اندردیوار کے  اُپری حصے پر چیزیں رکھنے کے لئے  بنایاگیا گہراخانہ کو کہتے ہیں ،جو کہ مختلف نمونے یعنی گول ،تکونی اوربیل بوٹے کے نقش و نگار سے تزایئن کر کے بنائے جاتے تھے۔  تاریخی لحاظ سےایران میں بھی عظیم عظیم حکومتیں رہ چکی ہیں اورسلطنت فارس کا یہ خطہ بالاائی حصہ رہ چکا ہےاور  اسی مناسبت سے پورےخطےکو بلورستان  کا نام بھی پڑچکا ہوگا ۔موجودہ دور میں بھی یہ  خطہ صرف بالائی و شمالی علاقہ جات ہونے حق آدا کرتا رہتا ہے۔آریائی باشندوں  کے علاوہ دیگر قبیلے کے لوگ بھی اس خطےسے گزرے ہونگےکیونکہ یہ وادی دیگر قدیم  سلطنتوں اور تہذیبوں  کےدرمیان مختصر ترین  گزرگاہ رہ چکی ہوگی۔پروفیسر نوید اقبال صاحب کے ایم۔ایے  سطح کے مقالے کے مطابق، آرایان نامی مورخ نے لکھا ہےکہ جب  ۳۲۶ قبل از مسیخ میں  “سکند راعظم  جلال آباد پہنچ گیاتو اس نےاپنی فوج کو درہ  خیبر اور شمالی سمت دو حصوں میں تقسیم کیا اور خود شمال کی جانب فوج کی قیادت کرتے ہو ے ، کنڑ  اسمار سے بھی کافی آگے نکلنے کی بھر پور کوشش کی،لیکن” دریا ئےکھوآسپس” کے کنارے آباد وخشی  باشندےانہیں  آگے جانے نہیں دیا” ۔اپنی فوج کو لیکر واپس رخ کر کے  نوا پاس کے راستے موجودہ  چکدرہ بونیر   سے ہوتے ہوے صوابی کی طرف نکل جاتا ہے ۔تو اسکا مطلب یہ ہے کہ سکندر اعظم سے بھی قبل”کھو “نام اس وادی کےباشندوں  کے لئے پڑ چکا تھا ۔سکندر اعظم جیسےعظیم فاتح بھی وادی چترال کی طرف نہ آسکا،اگر وہ یہاں سےگزرتا ، تب  جاکرہمیں  حقائق پر مبنی رائےقائم کرنے اور دلائل کے ساتھ ثابت کرنےمیں آسانی پیدا ہو جاتی۔جب  تہذیب یافتہ قومیں اس وادی میں آباد ہوتے گئے تو جنگلی وخشی لوگوں پر غالب آگئے ۔جب عرب میں اسلام کی روشنی نکل کرپوری دُینا میں پھیل گئی ،توآہستہ آہستہ مُبلعین ،صوفیاء کرام کے علاوہ مسلمان حکمراں  بھی اس علاقے سےگزرتے گئے  ۔حسرت    صاحب کےمحرکہ ڈاٹ میں چھپامضمون کے مطابق یہ خطہ رئیس مسلماں  حکمرانوں کےزیر اثر آنے کے بعد کاشغر کی حکومت کا بھی حصہ رہ چکا ہے اور اس وجہ سے اسکو” قشقار” بھی کہتے ہیں ۔جب کٹور نے رئیس سے حکومت چھین لی ،تو پاکستان بنے تک کٹور خاندان کی حکومت قائم رہی اور ۱۹۶۹میں چالیس ہزار نقد پاکستانی رقوم سمیت پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا ۔اس خطے کے محب وطن باشندوں کے نوجواں وطن عزیز کی حفاظت کے خاطر جنگ آزادی کشمیر۱۹۴۸ءسے لیکر آج کے اس  اندرونی خلفشاری کا مقابلہ کرتے ہوے شہادت کارتبہ پا کر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو اپنی خوب گاہوں کے اپر لہرائے اور یہ نشانیاں وادی عشریت سے لیکر سڑک کے کنارے مختلف وادیوںمیں یہ قابل فخرنظارے دیکھنے کو میسر آتے رہتے ہیں ۔ وادی کے  قدیم تاریخی اہمیت پرمختصر  بحث کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ قدیم زمانے میں سلطنتوں کے مابین سیاح  سفارتی وتجارتی تعلقات پیدا کرنے کی عرض سےسفر کیا کرتے تھے۔سفارتی وتجارتی  تعلقات استوار کرنے کے  بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کا بھی سامنا رہا ہے، جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں فرنگی قوم کی آمد کی وجہ سے   ہمیں   بر صعیرو  پاک و ہند میں  چار سو سالہ  مسلم حکمرانی سے ہاتھ سے نکل گئی ۔انگریزوں کی آمد سے بے شک چترال 4وادی بھی، جدید دنیا کے نقشے میں ابھری،اسکی اہمیت ہوگئی پہلی مرتبہ  انگریز   توپوں کو درہ شندور سے گزار کر اپناجھنڈاچترال قلعےمیں لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مہتر شیر افضل نے اپنی ساتھیوں کی مددسے مقابلہ و مزاحمت کی بھرپور کوشش کی  اور ایک روایت  کے مطابق شیر افضل کے ساتھیوں نے توت کے لکڑی سےدیسی ساخت کےتوپ بنا کر سنوغر سےنسر گول کے اس پار کئی مرتبہ فائر بھی کئے۔  جدید ہتھیاروں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ آخیر کاردیر نواب کے قلعہ میں صلح کے بہانے بلاکر  انگریزوں کےہاتھوں اپنی وفادار مرزا عافیت خان  سمیت  گرفتار ہو کر مدراس کے قید خانے  میں انتقال کر گیا۔شیر آفضل مہتر اورفادار خاندان (مرزاعافیت خان)کے افراد کو اسکے وصیت نامے سمیت ریاست چترال کو حوالہ کیا گیا ۔ مطلب میرا  کہناکا   یہ ہے کہ ہمیں  آجکل شیر آفضل مہتر کی طرح ان سیاحوں کےناپاک عزائم اور  ارادوں سے بھی واقفیت اور انکی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی وکڑی نگرانی  رکھنا  بھی ضروری ہے۔کیونکہ آج ہم بھی مغل حکمرانوں کی طرح بے  فکری اور لاپرواہی کی وجہ سے وطن عزیز کے اندرمختلف روپ میں یہ کوتاہیاں اپنی اثرات دیکھا رہی ہیں ۔ اس  کے بعد چترال میں انگریزوں کی  آمد کا سلسلہ جاری رہا  اور مختلف قسم کے جدید سہولیات ٹیلفون ،  تارگھراور پلوں کی تعمیر جیسی جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا ۔اور آج بھی انگریز قوم اسُ پر آمن وادی چترال کی طرف آنے کو ترجیح دیتی ہے ۔چترال میں (1927)میں پہلی مرتبہ گاڑی کولواری ٹاپ  سے  لوگ اپنےکندوں پر اٹھا کر چترال قلعہ 5 پہنچائےتھے  اورگاڑیوں کے لئےمستقل سڑک    بعد میں  بنائےگئے ۔بہت دیر تک تریاسی اور پچاسی کےعشرےمیں  انگریزوں کے باربردار قافلوں  کو پیدل تریچ وادی ، شاہ جنالی، زیور گول اور اجُنوگول  طرف جاتے ہوے کئی مرتبہ ہم دیکھ چُکے ہیں ۔ اس خطے میں روس کے ساتھ  آفغان  جنگ اور دیگر اتار چڑھاو کی وجہ سے بد امنی پیدا ہو گئی تھی اور سیاحت کے  شعبے کو بہت شدید نقصان پہنچ گیا ۔باقی      اندروں ملک کے سیاحوں  کے لئے چترال پاکستان میں ارضی جنت ہونے  کےساتھ ساتھ  ُپر امن اور مہذب ترین  لوگوں کا خطاب بھی مختلف حکمرانوں کے زبانی مل چکی ہے  اور پا   کستان  میں سیا حوں کے لئے پر کشش ترین سیاحتی مقام کا درجہ بھی حاصل  ہے ۔ جدید چترال ہر قسم کی اقامتی اورہوائی و زمینی سفری سہولیات سے لیس ہے ۔”ہندوکش ہائٹس  ہوٹل” جیسےجدید اور قدیم کے امتزاج سے بنی عمارت بہترین مقام  پرموجود ہے۔اس مقام سےچترال شہر اور ائر پورٹ کے ساتھ بہنے والا دریاے چترال (دریاے کہو آسپس اور موجودہ دریاے چترال)کا نظارہ   اپنے کمرے میں بیٹھ کر کر سکتے ہیں ،اس ہوٹل کے قابل اعتماد انتظامیہ نے اس خلفشار ی کے دور میں بھی بیرون ملک سیاحوں کو سہولیات فراہم کرتا رہتا ہے   یہ  جدید طرز کےہوٹل طغام  کے معاملے میں بھی مقامی اورعیر مقامی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کی سہولیت سے آراستہ ہے اسکے علاوہ تریچمیر ہوٹل ،ماونٹن ان ہوٹل  اورپامیر ہوٹل کے علاوہ چھوٹے بڑے ہوٹلوں کی سہولیا ت بھی موجود ہیں ۔اسکے علاوہ پی۔ٹی۔ڈی ۔سی  ہوٹلز چترال خاص،بمبوریت ،بیرموغ لشٹ ،بونی اور مستوج کے علاوہ  سرکاری  ریسٹ ہاوسزتمام سب تحصیلوں میں کام کررہے ہیں ۔

چترال کاموجودہ  انتظامی ڈھانچے کے مطابق دو  تحصیلوں اورانکے زیر انتظام سات سب تحصیلوں پر مشتمل ہے ۔ میرکھنی  چھاونی سے  جنوب یعنی  افعانستان کی طرف سب تحصیل ارندوسر سبز وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے ارندو خاص اسکا صدر مقام ہے۔میرکھنی سے ارندو کا فاصلہ ۳۲ کلومٹر ہےاور اس علاقے کی سب سے بڑی زبان ارندوئی وار ہے ،پشتو اور کہوار زبانیں  بھی بولی جاتی ہیں ۔ ُارسوں ، دامیل گول ، رام رام اورارندو گول کے علاوہ  جنگلات6 کے قیمتی خزانے سے ڈھکی  چھوٹی بڑی  وادیوں پر مشتمل ہےاس علاقے کیسب سے بڑی  زبان  ارندوئی ہے۔میرکھنی سے ارندو کا فاصلہ تقریباً  32کلومیٹر ہے۔اس علاقے کے لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں ۔افعانستان کے سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے سیاحت کو فروغ دینےمیں  روکاوٹ کا باعث ہے ۔میر کھنی سے اپر چترال کی طرف آتے ہوے چترال کے ذرخیز ترین اور  دوسرا بڑا شہر تحصیل دروش  آتا ہے   ۔تحصیل دروش بے شمار چھوٹے بڑےجنگلات سےبھرپور حسین وادیوں پرمشتمل ہے ۔ سیاح لواری پاس کوعبور کرنے کے بعد تھکے ہارے بھوک کے مارے دروش چوک کے مشہور کباب فروش  کے لذت سے بھر پورکباب پر  ہاتھ صاف کرنے کے بعد چترال کی طرف رخ کرتے ہیں ۔  ان  میں سیاحتی اعتبار اور سر سبز جنگلات کے لحاظ سے مشہوروادی شیشہی کوہ ہے ۔ اس وادی کے ذریعے سے  پیدل لوگ دیر ،سوات کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں ۔ مدک لشٹ اس وادی کی آخیری اور حسین ترین علاقہ ہے  ۔ جنگلات کی نعمت سے بھر پور چھوٹے بڑے وادیاں،  وسیع و عریض سپاٹ سر سبز میدان ، برف پوش  اونچی اونچی چوٹیوں اور ان سے  پھوٹنے والے  چشموں  پر مشتمل یہ خاموش پر سکوں مسحور کن وادی واقع کسی ارضی جنت سے کم نہیں  ہے۔ اس حسین وادی  سے  پیدل   راستہ وادی گولین کی طرف نکلتا ہے ۔ مدک لشٹ کے باسی مدک   لشٹی (فارسی) زبان بولتےہیں اور انتہائی پر آمن اور مہمان نواز لوگ ہیں ۔ اُسکے بعد تحصیل چترال آتا ہے جس میں بمبوریت کےوادیاں ،چترال گول ،گولین گول  کے حسین ترین وادیوں پر مشتمل ہے ۔چترال کی سیاحت میں ان وادیوں کومرکزی حیثت حاصیل ہے۔وادی 8بمبوریت تین وادیوں بمبوریت ،بریر اور رمبور پر مشتمل ہے اسکی مرکزی وادی بمبوریت ہے  ۔ چترال شہر  پہنچنے سے قبل چترال کے7 خوبصورت سر زمین آیون سے ہوتے ہوے  راستہ نکلتا ہے،یہ حسین گاوں اجکل بمبوریت سے نکلنے والی ندی سے آنے والے سیلاب کی زد میں ہے ۔ان وادیوں  کی ایک حصوصیت یہ ہے  کہ آج قدیم تہذیب دنیا میں    عجائب گھروں اور اوراق میں محفوظ ہیں لیکن ان وادیوں میں زندہ  چلتےپھرتے لوگ کئی ہزار سال   قدیم طرز زندگی گزارتے ہو ے موجود ہیں   ۔اس قدیم تہذیب کے بارےمیں   مختلف قسم کے آراء پیش کرتے ہیں لیکن میں اس مسئلے میں اُلجھے بے عیر آگے بڑھوں گا کیلاش  تہذیب اپنی الگ زبان  ، مذہب اور ثقافت کے ساتھ بڑے ُپر آمن اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں اور  پاکستان  کے ترقی میں بڑھ چڑھ کر ہر شعبےمیں  ہمارے ساتھ ساتھ نمایاں طور پر نظر اتے رہتے ہیں  ۔کیلاش قبیلے کے باشندے اپنے تہواروں،اعتقادات اوررسومات کوبڑی آزادی کے ساتھ مناتےرہتے   ہیں ان تہواروں میں چلم جوشٹ کو ہر سال  چودہ مئی کو مناتے ہیں اس تہوار کو دیکھنے کے لئے دنیا  بھر سے اور اندروں ملک سے بڑی تعداد  سیاحوں کی چترال پہنچ جاتی ہے۔اس وادی میں ہر معیار کے  ہوٹلز کی سہولیات  موجود  ہیں۔چترال سے اسکا فاصلہ تقریباً 34 کلومیٹر ہے۔

شاہی قلعہ چترال جو مغل طرز تعمیرکا ایک نمونہ ہے اوراسکا دیوان خاص اپنی اصلی حالت میں موجود ہے  ۔جو مہمانان خاض کے لئے کبھی کھبارکھولا جاتا ہے ۔شاہی قلعہ سے متصل مغل طرز تعمیر کا ایک اور شاہکار شاہی مسجدچترال دوبڑے گنبد او دو اونچے میناروں پرمشتمل ہے، جواپنی اصلی حالت میں چمک دمک کے ساتھ دعوت نظارہ دے رہی ہے ۔روایاتی کھیل فری سٹائل پولو کھیلنے کے لئے دو بڑے پولو 911گراونڈموجود ہیں  ،جس میں  بہار اور خزان کے  مہینوںمیں  چترال انتظامیہ کی طرف ٹور نامنٹ منعقد کرتے ہیں۔اس میں  چترال سکاوٹس،پولیس ،بارڈر فورس ،چترال خاص ،مستوج ،کوشٹ ،ریشن ،بونی اور برنس کے علاوہ بُز کشی کے لئے بھی مشہور  گبور اور پھستی کی  ٹیمیں بھی حصہ لیتے ہیں ۔پولو گراونڈ کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی موجود ہے،اس میں چترال کے قدیم  تہذیب کے تمام زیر استعمال اشیاء رکھے گئے ہیں ۔ اسکے علاوہ انگریزوں کے دور کا  بیرون طرز تعمیر  کے  فوجی میس کی عمارت  بھی اپنی اصلی حالت ِمیں  چترال  سکاوٹ 10 کےزیر استعمال ہے ۔گورنر ہاوس کی خوبصوت عمارت چترال شہر کے اونچائی پر واقع چٹان کے اوپر تعمیر کی گئی ہے۔اسکے سبزہ زار سے پورے چترال شہر کا دلفریب نظارہ با آسانی کیا جاتا ہے۔ مغل طرز تعمیر کا ایک اور خوبصورت قلعہ مہتر صاحب کاگرمیوں  کےموسم  گزارنے کے لئےچترال گول کےسیا حتی و حسین ترین مقام بیرموغ لشٹ کے مقام  پرہنوز خستہ حالت میں موجود ہے۔ -چترال گول نیشنل پارک ،سر سبزو حسین وادی  مار خور اور برفانی چیتوں  کا مسکن ہے۔اس پارک سےملحقہ علا  قہ تھوشی کے مقام  (شہر شام)پر  مارخور سڑک کے کنارے چھوٹا سادریا کے اس پار بہت  کم فاصلے پر  شام کے وقت پانی پینے کے لئے اترتے ہیں ۔کسی جنگلی  نایاب حیات کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا منظر  بہت زیادہ پُر لطف ہوتا ہے اور شام کے وقت سیاح اپنے اپنے کیمروں کو لیکر انتہائی قریب سے اس منظر کومحفوظ کرنے کے لئے بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں اور حصوصی طور پر  بچے  انتہائی  دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوے دیکھائی دیتے  ہیں ۔ہر سال شکار کے لئے اجازت نامہ لیکر بھاری فیس ادا کر کےشکار کے شوقین لوگ  چترال پہنچ جاتے ہیں ان پیسوں میں سےحکومتی ٹیکس کو خزانے میں جمع کرتے ہیں اور باقی تمام رقوم کو کمیونٹی  کے دیہی تنظیم کے اکاونٹ میں جمع کرتے ہیں ۔تنظیم ان پیسوں سے ان جانوروں کی نگرانی کے لئے عملے کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ دیہی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرتےہیں ۔تحصیل چترال کا ایک اور خوبصورت وادی گولین گول اپنی قدرتی حسن سے ما لامال ہے  ۔گولین کا داخلی راستہ انتہائی تنگ ہے اور جب  آپ   (ایزیغور )کےمقام پر پہنچ جاتے ہیں،وہیں پرآپ اپنے اپکو کھلی فضاء میں دو وادیوں کی سنگم میں پاو گے،جنوب کی جانب پہلی حسین سر سبز اور  دیودار کے جنگلات سے بھرپوراوردو خوبصورت جھیلوں پرمشتمل وادی  کا پیدل راستہ شیشی کوہاور جعور کی حسین وادیوخی طرف نکلتا ہے۔  دوسری بڑی  وادی سیاحتی مقام  جنگل کی طرف راستہ نکلتاہے۔ایزیغورکے مقام پر رہائشی مکانات  کے بیچ ایک بہت بڑا چشمہ سے پانی  بڑی مقدار میں نکلتا ہے ،مالک جایئدادنے اپنے مہماں خانے کے سامنےتازہ  ٹراوٹ مچھلیوں کے لئے  تالابیں بنا کر اس وادی میں آنے والےسیاحوں کو مناسب قیمت پر تازہ ٹراوٹ مچھلیاں پکانے کی سہولت فراہم کرچکا ہے،ذائقہ سے بھر پورتازہ ٹراوٹ مچھلی کا ذائقہ  چکنے کے بعد تازہ دم ہو کر اگے جنگل کے پر فضا سیاحتی مقام کی طرف روانہ  ہوتے ہیں ۔اوراسی سنگم   پر دونوں وادیوں سے  جمع۱۲ 13ہونےوالے پانی  سےگولین گول ہائیڈل  پاور پراجیکٹ کا منبع بنایا گیا ہے ، اس مقام سےصاف شفاف پانی کو ُسرنگ کے ذریعے گزار  کر  حسین گاوں کوغوزی کے مقام پر 106 میگاواٹ کا  بجلی  گھر (کورین سامبو کمپنی)کے زیر نگرانی اپنی تکمیل کے آخیری مرحلے میں ہے۔جنگل کی طرف جاتے ہوے راستے میں صنوبر کی جنگلات کےدرمیان  سے ہوتے ہوے ایک خوبصورت وسیع سپاٹ سبزہ زار ا میں پہنچ جاتاہے،اورچشموں سے نکلنے ولا پاک شفاف نالے کےارد گرد سرسبزگھاس کےُ اپر  سرخ سفید رنگ کےخود رو پھول  اپکو خوش آمدید کہتے  ہوئے، انسان کو  تھوڑی دیر محو کرکے فطرت کے بارے میں چند لمحے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور بے اختیا ر اﷲ کی تعریف میں انساں کچھ نہ کچھ کہے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔دریا کے اس پار گھاس کے بڑے میدانوں میں  مویشیوں کے جُھنڈ   افریقہ کے کسی وادی کا منظر پیش کر تا ہوا دیکھائی دیے گا ۔ جنگل کےوسیع سبزہ زار  کے وسط میں  ائی۔ یو ۔سی۔این پراجیکٹ  کی جانب سےلکڑی اور ٹین کے چادروں  سے   بناے گئےواحد  ایک کمرہ خستہ حالت میں  موجود ہے  ۔اس کمرے کےاردگرد انسان آلو کی کاشت میں اس حسین وادی کے قدرتی حسن کو نقصان پہنچانے میں مصروف دیکھائی دے گا ۔جنگل کےِ اس مقام تک گاڑی کے ذریعے آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں  اور باقی تمام وادیوں کو پیدل راستہ نکلتا ہے۔اس سبزہ زار کے وسط میں ایک بڑا چشمہ ُابلتا ہے۔جنوب مشرق کی جانب  جنگلات اور دو بڑے حسین جھیلوں پر مشتمل حسین وادی سےہوتے ہوےمدک لشٹ(غوچھارسورپاس) کے ذریعےسےشیشی کوہ وادی کی جانب  نکلتی ہے۔ داسری بڑی  وادی  شمالی  کی طرف پہاڑوں کے بیچ میں سے ہوتے ہوے لاسپور (پارگرام)کے    ذریعےدرہ شندور کی طرف نکلتی ہے ۔تیسری وادی  اپکو گھبرال کالام کی طرف  لے  جاے گی۔ معرب کی سمت وادی ریشن کی جانب نکلتی  ہے۔ اس  وادی میں سیاحتی سہو لیات کے عدم  موجودگی کی وجہ سے،آج یہ حسین وادیاں ہم سب کے نظروں سے اوجھل ہیں ۔وادی کوہ  بونی روڈ پر واقع کاری گا    وں سے شروغ ہوکربرنس تک پھیلی ہوئی ہے۔ کجو گاوں کےسامنے ٹھنڈے چشموں کے ارد گرد رکھے گئے ذائقہ سے بھر پورانگور کا لطف  اٹھاتے ہوے  جب آپ مروئی کے مقام پرموجود  ہوٹلزقدیم زمانے سےلیکرآج تک مسافروں کی سہولیات کے لئے مشہور ہیں اوربرف پوش پہاڑوں سے تازہ ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہونے کے لئے قدرت نے خود ہی انتظام کر لیا ہے۔

زیریں چترال کا چوتھا سب تحصیل لٹکوہ کا صٔدر مقام گرمچشمہ ہے۔چترال سے گرم چشمہ کا فاصلہ45کلومیٹرہے۔ یہ وادی  چھوٹی بڑی وادیوں پر مشتمل اور معدنی ذخائر سے بھر پور   انتہائی حسین علاقہ ہے۔گرم چشمہ سے نکلناوالاگرم پانی جِلدی و دیگر بیماریوںکیلئے مفیدمانا جاتا ہے اس میں نہانے کے لئے باقاعدہ غسل خانے بھی موجود ہیں  ۔اس چشمے سے علاج کے خاطرملک کے دور دراز وعلاقوں سےلوگوں کی بڑی تعداد  اس وادی میں پہنچ جا تی ہے۔گاوں موغ کی خاص پٹی “موغ پٹی “کے نام سے پوری دنیا میں پہچان رکھتی ہے۔ اس علاقے کو آلوکی کاشت کے حوالےسے بھی شہرت حاصیل ہوئی ہے اوراس پیداوار کو ملک کے بڑی منڈیوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ٹراوٹ مچھلیاں بہار کے موسم میں صاف شفاف بہنے والے دریامیں  تیرتے ہوے نظر آتے ہیں اور متعلقہ محکمہ سے اجازت نامہ لیکر شکارکی سہولت بھی موجود ہے۔ اسکی ایک حوبصورت وادی بیگوشٹ ہے اسکا ایک  پیدل راستہ  چترال گول نیشنل پارک اوردوسرا پیدل راستہ نورستان کی طرف بھی  نکلتا ہے او رسب سے بڑی وادی  پرابیگ، گو ہک، گبوراور  شیخ سلیم سے جیب ایبل راستہ آفعانستان پہنچ نکلتا جاتاہے۔وادی ارکاری بھی ایک بڑی وادی ہے ۔اسی وادی سے ایک راستہ درہ اکرم (اکرمو آن ) سے ہوتےہوے آفعانستان کے زیبک کی طرف ہے۔وادی کریم آباد  تریچمیر کے دامن میں آباد ایک گاوں ہے یہ علاقہ اجکل ٹماٹر اور مٹر کے پیداوار کے حوالے سےشہرت حاصیل کی ہے۔اور   اسکے علاوہ مختلف قسم کے جڑی بوٹیوں    کو پیک  کر کے دوائی ساز کمپنیوں تک بھی پہنچائیےجاتے ہیں ۔اسکا ایک پیدل راستہ 14پھستی سے ہوتے ہوے وادی اویر جانب  نکلتا ہے۔  وادی لٹکوہ میں سرکاری ریسٹ ہاوس،گورنر ہاوس کےعلاوہ   اینجیگان ہوٹل اور چھوٹے سے بازار میں بھی ہر معیار کے رہائشی  سہولیت موجود ہیں ۔بنک ہسپتال اور مختلف نیٹ ورک  کےٹیلی  مواصلاتی نظام کے سہولیات بھی موجود ہیں ۔اسکے بعد بالائی چترال (بلور،سرحدی  )  تحصیل مستوج کی طرف بڑھتے ہیں اسکا  صدر مقام بونی تینوں سب تحصیلوں کا مرکز ہے ۔بونی شہر  وسیع رقبے پرپھیلا ہو حسین علاقہ ہے۔ موسم  سردیوں  میں انتہائی سرد اور گرمیوں  میں انتہائی خوشگوار ہوتا ہے ۔چترال سےبونی کافاصلہ تقریباً 75کلومیٹرہے۔بونی کے پشت پر بونی زوم کے اپر بڑی  مقدار میں گلیشئر ( یخ رواں )کی موجودگی کی وجہ سےصاف شفاف ٹھنڈے پانی کی فراوانی نےذائقہ دار سیب اور دیگر پھلوں کے لئے مناسب ترین مقام کاحامل علاقہ قراردیا جاتا ہے۔ بونی تک سڑک پکی ہے بونی تورکہو اور بونی شندور روڈ پر کام انشاﷲ بہت جلد شروع ہو  جاے گا۔بونی کے سامنے معربی سمت کی جانب  دریاے یارخون اور دریاے تورکہو کے سنگھم پرواقع بے آب و گیاہ  میدان قاقلشٹ واقع ہے، جسکی لمبائی تقریباً اٹھ کلو میٹر ہے ،موسم بہار میں اپریل مئی تک  برف 15 پوش پہاڑوں کے دامن میں گھاس کی یک سبز کارپٹ  بچھی ہوتی ہے۔اپریل کے وسط میں اس مقام پر” جشن قاقلشٹ “کے نام سےجشن منایا جاتا ہے۔ بونی  چترال کا تیسرا بڑا شہر ہے اسمیں 16تمام تر اقامتی سہولیات تقریباً موجود ہیں ۔  اس تہوار  میں مقامی لوگوں کے علاوہ عیر مقامی لوگ بھی شرکت کرتے ہیں ۔سب تحصیل مستوج وادی یارخون اور وادی لاسپو کے بسنگھم میں واقع ہونے کی وجہ سے قدیم آیام سے اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔بونی سے مستوج کا فاصلہ  تقریباً32کلومیٹرہے۔اسمیں بنک  ،ہسپتال کے علاوہ تقریباً  ٹیلی مواصلات کے تمام نیٹ ورک کے سہولیت سے لیس علاقہ ہے۔اس میں پرایئوٹ گیسٹ ہاوسزاور ایک سرکاری ریسٹ ہاوس اورپی۔ٹی۔ڈی ۔سی  ہوٹل کےسہولیات موجود ہیں۔مستوج میں ُپرانے زمانے کی کچی عمارت کا شاہی قلعہ بھی حستہ حالت میں موجود ہے اور  “ہندوکش ہائتس ہوٹل” کے مالک کا قلعہ اور   ملکیت ہونے کی وجہ سے ،اس ہوٹل کے طرزپر اس قلعہ کے اندرعیر ملکی سیاحوں اورخصوصی مہمانوں کے لئے، خیموں اور لکڑی سے بناے گئے کمروں کو مختلف علاقائی و روایاتی ناموں سے منسوب کر کے رہائشی  سہولت فراہم کی گئی ہے۔البتہ ہندوکش ہائتس ہوٹل کی وساطت سے ان سہولیات سے فائدہ سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کے دور  سے چترال میں  سب سے پہلا ڈاکخانہ ،تار گھراورٹیلیفون کی سہولیات بھی  مستوج کوگلگت کی طرف سے مہیا کی گئی تھی اورآج کے جدید دور17 میں پہلی مرتبہ باقاعدہ  بس سروس( نیٹکو ) کی جانب سے گلگت اور مستوج کے درمیان شروغ ہونے کا اعزاز بھی وادی مستوج کو حاصل ہو گئے۔مستوج کی  وادی لاسپو ر ایک تاریخی اہمیت کاحامل ہے اس وادی سے  تین بڑے دروں   پر مشتمل ہےاورپیدل راستہ، گولین گول اوراشو کالام  کی  طرف نکلتا ہے اور تیسرا  ٹرک ایبل راستہ درہ شندورسے ہوتے ہوے گلگت کی طرف نکلتا ہے۔ دنیا کی بلند ترین پولو گراوندشندور میں ہر سال  جولائی کےمہینےمیں جشن شندور کے نام سے جشن مناتے ہیں ۔مستوج سے شندور کا فاصلہ تقریباً 80کلومیٹر ہے۔جسمیں چترال اور گلگت کے درمیان فر ی اسٹائیل پولو میچ کا مقابلہ ہوتا ہے۔شندور  وادی  میں انسان جب پہلی مرتبہ  داخل ہوجاتا ہے توبرف پوش پہاڑوں کے وسط میں واقع، شندورجھیل کے پر فریب نظار ے کوانساں مرتے دم تک  نہیں بھول سکتا ہے ۔اس جشن میں اندرون ملک و بیرون ملک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے ۔تین دنوں کے لئے ادھر ادھر مختلف رنگوں اور قسموں کےخیموں کا  ایک الگ شہر آباد ہو جاتا ہے۔اور  نمائشیں لگتی ہیں۔ چترال اور گلگت کی طرف سے رات کےوقت  ڈول اور موسیقی کے بڑے بڑے مخافل  کااہتما م کرتے ہیں ۔ بعض گروہوں میں بٹ کر اپنے اپنے خیموں میں  کھانے کا انتظام کوئی دھنبہ ذبخ کرکےیا اپنی استطاعت کے مطابق بندوبست کرتے ہیں ۔ خیموں سے کھانا پکانے   کی خوشبو کے علاوہ ستار اور موسیقی کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہے ۔اس میلے کا اختتام ہر سال پاکستان کے صدور و وزرائےاعظموں اور بڑے شحصیتوں کے ہاتھوں ہوتے ہوے دیکھنے کا موقع میسر آتا رہتا ہےمستوج کی سب سے بڑی وادی یارخون ہے جومستوج سے تقریباً 200کلومیٹرطے کر کے  بروغل کے مقام پر پہنچ کر  پاکستان اور افعانستان  کو ایک دوسرے جدا کرتی ہے۔ اس مقام پر بھی ہر سال “جشن بروغل ” کے نام سے جشن منایاجاتاہے۔اس موقع پر اس وادی میں سیاحوں کی کافی تعداد جمع ہوتی ہے۔خوش گاو کاپولو میچ کامقابلہ اورعلاقائی رقص،گانے کے محافل کے  کے علاوہ روایاتی کھانوں کی بھی نمائش ہوتی ہے۔اس وادی میں چترال سکاوٹ کے  علاوہ بارڈر فورس کی چوکیاں موجود ہیں ۔ سیاحت کے فروغ کے لئے کام کرنے والا، ( یاک ٹریول)کے نام سے ٹریول ایجنسی اس حوالے سے معلومات کے حصول و رہنمائی کرتی رہتی ہے۔  18   بروغل کے باشندےوخی زبان بولتے ہیں انکی طرز زندگی وخی طرز کی ہے ۔   چترال شہرسے دور ہونے کی وجہ سےیہ علاقہ سیاحت اور دیگربنیادی سہولیات سے محروم ہے۔    وادی کے چند مشہور پیدل راستے ہیں ۔ ان میں ایک راستہ یارخون لشٹ کے (شاغاری پاس)کو عبورکر کے شاہ جنالی ہوتےہوئے تورکہووادی کی 19طرف نکلتا ہے۔دوسرا پیدل راستہ “جھیل  قرمبرپاس” کےاس مشہورجھیل کوعبورکرتےہوے یاسین وادی گلگت کی طرف نکلتاہے۔ تیسراپیدل راستہ (چٹی بوئےپاس)کےمشہورگلہشیر(یخ رواں )کو عبور کرتےہوے ہوے گلگت یاسین وادی کی طرف نکلتا ہے۔اسکے علاوہ ریچ کو بھنگ گول، عذر کو چمرکن پاس ، کہوت کو کہوتان ،استارو کو استار واں  کو پیدل  راستوں کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں ۔

اب چھٹے سب تحصیل موڑکہو کی طرف بڑھتے ہیں اس تحصیل کا صدر مقام وریجون ہے،یہاں پر کوئی خاص سیاحتی مقامات نہیں ہیں ۔ کہوقوم کی مرکزی مقام قدیم آبادی اور تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔البتہ وادی تریچ میں تریچ میر کی اونچی چوٹی اس تحصیل کی شناحت کے لئے کافی ہے۔تریچ وادی انتہائی خوبصورت اور دلفریب وادیوں پرمشتمل ہے اس  وادی سے ہوتے ہوے سیاح تریچ  میرکے  چوٹی کو سر کرنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں  ۔زمانہ قدیم میں درہ روژگول سے ہوتے ہوے افعانستان کی طرف سفر کیا کرتے تھے۔تریچ میر کی وادی کے لئے ُپرانے زمانے سےدومشہور  دو راستے ہیں  ایک پیدل راستہ” زانی پاس “سے ہوتے ہوے تریچ وادی میں پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا جیب ایبل راستہ ۲۰تورکہورائین  کےسامنے،سوروہت سے ہوتے ہوے، وادی تریچ  کی طرف نکلتا ہے ۔لون گاوں کے اونچائی پرواقع چراگاہ میں اویر اور لون گاوں کے درمیان بیلوں کو لڑانےیعنی(بھل فائیٹنگ) کا ایک دلچسپ مقابلہ ہوتا ہے ان لوگوں نےپورے سال اپنے بیلوں کو خصوصی طور پر پالتے ہیں کیونکہ پورے علاقے کی ننگ وناموس کا مسلہ ہوتا ہےاور جیتنے پر بڑی خوشی منائی جاتی ہے ۔وادی اویر بھی ایک خوبصورت وادی ہے اس وادی کے مشہور گاوں ریری کے خشک خوبانی(چمبور) ذائقہ کے لحاظ سے شہرت کے حامل ہیں ۔تحصل موڑکہومیں موبائل سروس  اور دیگرسہولیات سروسزبھی تقریباً مختلف مقامات پر  موجود ہیں ۔ وادی اویر سے ہوتا ہو ایک پیدل راستہ تریچ میر کے دامن میں واقع وادی کریم آباد کی طرف نکلتا ہے۔مداک گاوں میں چکنی مٹی سے بنے مختلف قسم کے  (ٹونج)مصنوغات قدیم زمانےسے پورے چترال میں مشہور ہیں۔

ساتواں  سب تحصیل تور کہو کا صدر مقام شاگرام ہے  ۔ شاگرام ہموار رقبے پر پھیلا ہوا وسیع  علاقہ ہے۔بونی سے شاگرام کا فاصلہ تقریباً  32کلومیٹر ہے۔ شاہی قلعہ کاوسیع رقبےپرپھیلی کچی عمارت خستہ حالت میِں موجودہے۔ایک قدیم  پولو گراونڈ بھی درمیان سے سڑک گزرنے کی وجہ سے نا قابل استعمال حالت میں اور  واحد سرکاری ریسٹ ہاوس بھی ناگفتہ بہ حالت میں موجود ہے۔ٹیلی مواصلات میں موبائل سروس اور لیند لائین ، وی لوپ سروس تقریباً تمام وادیوں میں دستیاب ہے۔بنک ہسپتال و دیگر بنیادی سہولیات تقریباً دستیاب ہیں ۔ یہ وادی سیاحتی سہولیات کی شدید کمی کا شکا رہے۔اس کمی کو رائین سوروہت یا شاگرام میں سے کسی ایک موزوں مقام  پر  پی۔ٹی۔دی۔سی موٹل تعمیر کرکے دور  کی جاسکتی ہے۔ وادی تورکہو  قدرتی حسن سے مالامال ہے۔اس وادی کے حسین گاوں رائین میں موڑیومو زوم ،شاموخی بھوت اور قلمدار بوتینی بھوت کے بارے میں مختلف  تاریخی اہمیت کے قصے مشہور ہیں اور انہی اثرات سے اس وادی کی قدامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس گاوں کا مشہور پھل ذائقہ دارناشپاتی اور ورکہپ کے خوبانی اور دیگر  پھلوں اور فصلوں کے لحاظ سے شہرت کا حامل علاقہ ہے ۔رائِین گاوں میں ائبیکس، مارخوراورخوش گاو(زوغ) کے سینگ سے بنی ہوئی آنگھوٹیاں ، خوبانی کے خشک لکڑی سے بنے ہوے  چمچوں (کھپنی) اور بید کے خشک لکڑی سے بنی تیر کمان جیسی غلیل(چھونجیر)کے مصنوغات کے لئے   شہرت کا حامل گاوں ہے۔ قدیم زمانےسے ایک پولو گراونڈ رائین جنالی کے نام سے مشہورےہےاوردرمیان سے  سڑک گزارنے کی وجہ سےاسکی  شہرت اور حسن کو نقصان۱۳ ۱۴ ۱۵

پہنچاہے۔رائین کے تاریخی قلمدار بوتینی بھوت کے سامنے  دریائے تورکہواور دریائے تیریچ دو       دریاوَں کے  سنگم میں موجود سوروہت گاوَں کاخوبصورت نظارہ  دیکھنے کو ملتا ہے۔رائین گول سےجیب ایبل راستہ مڑپ وادی کی طرف نکلتاہے۔مڑپ وادی میں  ایک چھوٹی سی جھیل اودیرکے مقام پر) کوماڑین چھت) کے نام سے مشہور ہےاور یہ خوبصورت جھیل گاوں کے وسط میں واقع ہے۔ مڑپ وادی کے آخیر حصے میں گھاس کا میدان   مڑپ پاس (مڑپ آن) کو عبور کرتے ہوےمستوج کے گاوں  کھوژ اور اودیر سے ہوتے ہوے(خوتُج آن) کےسبزہ زار اور خودرو پھولوں سے مشہور وادی   کوعبورکرکےپرکوسپ کی طرف  پیدل راستہ نکلتا ہے۔علاقہ کھوت بھی سر سبزو شاداب ،ہموار اور قدرتی حسن سے مالامال وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی بڑی آبادی پر مشتمل وادی ہے۔اس میں شعالشٹ کے نام سے پہاڑوں کے دامن میں ایک سر سبز وشاداب  گھاس کا وسیع میدان موجود ہے۔اس مقام پر مقامی افراد ہر سال (سوت کوریک )کے نام سےجشن مناتے ہیں ۔شعالشٹ چراگاہ میں مال مویشیوں سمیت عارضی رہائش پذیر  لوگ سات اقسام کے روایاتی کھانے تیارکرکےجشن میں شرکاء کی تواضع کی جاتی ہے۔ کھوت کو قدیم آبادی مانی جاتی ہے۔ ا اس علاقے کے لئے قدیم زمانے کی بڑی نہر بھی( راژوے)کے نام سےبنائی گئی تھی جو آج  بھی اس وادی کی آبیاری کے لئے کافی ہے۔یہاں  گیسو مزار کے نام سے ایک زیارت بھی موجود ہے ،”گیسو مبارک “کو کسی ایک برگزیدہ  انسان نےاس   قدیم آبادی کے وسط میں تحفتاً  رکھا تھا۔ مزار کےساتھ مسجد بھی تعمیر کی گئی ہےیہ  مسجدآج کل دوبارہ تعمیر کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔اس میں ایک ساتھ دو بڑے پولو گرا ونڈ بھی موجود ہیں ۔ اس وادی سے کھوت آن کوعبور کرتے ہوے ایک پیدل راستہ دیزگ یار خون کی طرف نکلتا ہے ۔زیور گول اور اجنو گول   بھی قدیم گزر گاہیں رہ چکی ہیں ۔ یہ علاقہ عیر آباد  سر سبزبوڑی اور صنوبر کے جنگلات  سے بھر پور وسیع رقبے پر پھیلی ہوئ بڑیی وادیاں  ہیں  ۔اسمیں  جنگلی حیات کی انواع و اقسام پائی جاتی ہیں ۔ اُجنو گول اور زیور گول کے چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے کئی  مقامی راہنما   ، فرنگیوں کی راہنمائی کے فرائض کی ادائیگی اور مہم جوئی کے قصے ( عبدالہکاک مرحوم ) کےزبانی کئی مرتبہ ہم  سن چکے ہیں ۔ تحصیل تورکہو کی آخیری حسین علاقہ ریچ وادی ہے ۔ریچ گول سے ہوتے ہوے ایک راستہ  بانگ یارخون کی طرف نکلتا ہے۔اس وادی کے آخیر میں سب سے  بڑی چراگاہ وادی شاہ جنالی شروغ ہوتی ہے۔اس وادی کے سنگھم میں واقع  مغلنگ وادی کئی 20چھوٹی بڑی وادیوں پر مشتمل ہے ۔یہ وادی معدنی ذخائر سے بھر پور ہے ۔   درہ شاہ جنالی کے(شا غاری پاس) سےہوتےہوے  یارخون لشٹ کی  جانب وادی نکلتی ہے ۔ ایک اور راستہ ریچ گول سے ہوتے  ہوے بانگ کی طرف نکلتاہے۔ شاہ جنالی ایک وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا گھاس کابڑا  میدان ہے۔ اس وادی میں  مختلف قسم  کےمقامی درختوںصنوبر،بید یعنی(بوڑی ،شاتیلک )و خود روجھاڑیوں اور   جڑی بوٹیوں سے بھری جنگلات پر مشتمل حسین وادی ہے ۔مقامی افراد گرمیوں کے موسم میں مال مویشیوں کو بڑی تعداد میں  وہاں پر چھوڑدیتے ہیں ۔ آجکل” جشن بیلان ” کے نام سے،اکتوبرکے مہینےمیں   بیلوں کو انہی چراگاہ سے گاوں کی طرف لاتے ہوے جشن مناتے ہیں ۔ تحصل تورکہو کی وادیاں قدیم گزرگاہیں رہ چکی ہیں

چترال کے پر آمن حسین وادیوں کے تذکرے کے لئے میری کوشش آخیری کوشش نہیں ہو گی اور نہ میں اس حق کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔بے شک مجھ سےبےشمارخوبصورت مختلف وادیاں ہونگے انکا تذکرہ نہ کر سکا ۔چترال رقبے کے لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بھی انہی وادیوں سےواقف نہیں  ہیں  ۔اس مضمون کی وساطت سے مقامی گزرگاہوں اور حسین وادیوں کے متعلق اور خصوصی طور پر  اجکل کوہ پیما ئی  کے شوقین نوجوانوں کی بڑی تعداد گلگت سے کوہ پیمائی کی تربیت حاصل کر کے واپس آئے ہیں انکو ان وادیوں کے بارے میں  کافی اگاہی مل جائے گی۔  دوسری  بات یہ  سنے میں آئی ہے کہ چترال کےپہلے خاتون ایم۔پی ۔اے کو پارلیمانی سیکریٹری برائے سیاحت  لی گئی ہے ۔اس فیصلےسے سیاحت کے سلسلےمیں حکومتی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس طرح امید کی جاتی ہےکہ موجودہ صوبائی حکومت مدک لشٹ (غوچھارسور)لاسپور(پارگرام پاس)اور شاہ جنالی (شاغاری پاس )تورکہووادی سے جیب ٹریک گزار کر ان حسین وادیوں تک رسائی کو ممکن بنائی جاسکتی ہے ۔مستقبل میں امید ہےچترال ٹاون سے لفٹ بیرموغ لشٹ اور چترال گول کے اپر سے گزار کر حسین وادی کی سیر آسانی کے ساتھ کرائی جاسکتی ہے۔اس طرح ہم ایک سیاحتی  سہولیات فراہم کر کےمعدنی وسائل تک بھی آسانی کے ساتھ رسائی حاصیل کر سکتے ہیں ۔امید ہے کہ مستقبل میں میرے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جاے ،کہ ہم سچ مچ  مستنصر حسین تارڑصاحب کو”نئے چترال داستان” لکھنے کی دعوت دینگے اور  جیپ کے ذریعے مدک لشٹ  اورگولین گول وادی  سے ہوتے ہوے لاسپور وادی میں داخل ہو کرمرحوم گل والی خان کے اسی مہمان خانے میں بیٹھ کر  وہی دسترخواں پرانواع واقسام کے کھانے کی رہی سہی حواہش کو پوری کرنے کے بعد یارخون لشٹ سے(شاغاری پاس )کو عبور کر کےشاہ جنالی سے ہوتے ہوےہم  تورکہو وادی میں نو تعمیر شدہ پی۔ٹی۔ڈی۔سی ہوٹل میں قیام کرکےواپس چترال شہر پہنچ جائیں گے ۔——- تب جاکر  ہم مستنصر صاحب سےیہ امیدرکھنے کے قابل ہونگے   کہ وہ  چترالی قوم سے کوئی انصاف کرکے”نئے چترال داستان “لکھ کر کر سکےاور ارضی جنت کہنے پر مجبور ہو جائے۔اور بہتر رخ کو دیکھا کرمستقبل میں اس پر امن  اورمعدنی ذخائر سے بھر پور حسین وادی  سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے مواقع کی نشاندہی میں  ہمر کاب بنے۔ سہولیات سے کمی کے شکار  وادی چترال سیاحتی اور معدنی  ذخائر سے مستفید ہوکر ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے برابر  سہولیات حاصل کرنے قابل ہو سکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
پروفیسر شفیق احمد
پروفیسر شفیق احمد
+ رپورٹس/ کالم

پروفیسر شفیق احمد 1 جنوری، 1977ء کو پاکستان کے صوبہ سرحد کی وادی چترال کے گاؤں، رائین تحصیل تورکھو میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک ماہرتعلیم، مدرس، لکھاری،پروفیسر اور محقق ہیں۔ اب آپ ہائیر ایجوکیشن خیبر پختونخوا میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے مقامی اخبارات کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔