صدا بصحرا…..ڈرائیونگ سیٹ

……..ڈاکٹر عنایت اللہ فضی ؔ …..
4فروری کے اخبارات میں گوادر کاشغر شاہراہ کی افتتاحی تقریب کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ جھلکیوں میں ایک بڑی خبر دی گئی۔ بڑی خبر یہ تھی کہ ہیلی پیڈ سے وزیر اعظم کو فوجی گاڑی میں افتتاح کی جگہ پر لے جایا گیا۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بیٹھے تھے اور گاڑی چلا رہے تھے۔ ایسی خبریں اور اس نوعیت کی تصاویر انٹر سروسزپبلک ریلیشنز کے محکمے کی اجازت کے بغیر شائع نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اندازہ ہے کہ آئی ایس پی آر نے اس خبر کو کلیئر کر دیا ہو گا۔ اس خبر میں جو کچھ ہے اس سے زیادہ بین السطور میں نظر آتا ہے۔ خبر نگاروں اور رپورٹروں کی تربیت میں ایک ماڈیول ہوتا ہے اس میں خبر کی تعریف کی جاتی ہے۔ خبر کی تعریف یہ ہے کہ کتّا آدمی کو کاٹے تو خبر نہیں بنتی ہے۔ انہونی بات خبر ہوتی ہے۔ اگر وزیر اعظم ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے تو خبر بنتی۔ آرمی چیف کا ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا کوئی خبر نہیں ہے۔ ہمیں 12اکتوبر 1999ء کا دن کبھی نہیں بھولے گا۔ جب میاں نواز شریف نے ڈرائیونگ سیٹ پر آکر سٹیرنگ ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تھی اس کے بعد یوں ہوا کہ بقول شاعر
لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
انگریزی میں ایک محاورہ ہے “کال دی شاٹز” اسکا مطلب ہے کس کا حکم چلتا ہے؟ اس حوالے سے ایک پرانا گھِسا پٹا لطیفہ بھی خاصا مشہورہے۔ کہتے ہیں چھ سالہ بچے نے باپ سے پوچھاکہ مرد کسے کہتے ہیں۔ باپ نے کہا بیٹے ! جو طاقتور ہو ، جس کی بات مانی جاتی ہو، جس کا حکم چلتا ہواور جس کی مرضی کے بغیر دوسروں کو کچھ کرنے کی مجال نہ ہو اس کو مرد کہتے ہیں۔ بچے نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر میں بھی بڑا ہو کر “امی” کی طرح مرد بنوں گا۔ باپ نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے دوسرا پیرایہ اختیار کیا۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا۔ جو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے وہ مرد کہلاتا ہے۔ مگر اس طرح شاید بات پوری طرح بچے کی سمجھ میں نہ آتی۔ اس لئے باپ نے عام فہم الفاظ میں مرد کی تعریف کی اور بچے نے بھی گھر کی ریاست یا سلطنت میں “مرد”کی درست نشاندہی کی۔ عجیب بات ہے اسلام آباد میں جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف اقتدار میں تھے تو لوگ اپنے جائز یا ناجائز کاموں کے لئے امریکی سفارت خانے سے اعلانیہ یا خفیہ طور پر وا بستہ گوروں یا گوریوں کی سفارش ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ کام نکالنے کا یہ آسان نسخہ تھا۔ جب زرداری اور میاں نواز شریف حکومت میں آئے تو لوگوں نے رخ بد ل دیا۔ اب جائز یا ناجائز کاموں کے لئے بقول عمران خان امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنے لگے یا اخباری جھلکیوں کی رو سے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف دیکھنے لگے۔ کیونکہ زرداری اور میاں نوازشریف کے ادوار میں گوروں اور گوریوں کی جگہ وہ ہستی لے لیتی ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے اور سٹیرنگ ہاتھ میں لینے کی شہرت رکھتی ہے۔ اب یہ چلن صوبائی دارالحکومت، ڈویژنل ہیڈکوارٹر اور اضلاع کی سطح تک آگیا ہے۔ لو گ اپنے مسائل کے حل کے لئے “مفتی”والوں کے دفتروں میں 100بار چکر لگائیں۔ کچھ نہیں ہوتا۔ وردی والے کو ایک باردرخواست دیں۔ کام ہو جاتا ہے۔ چاہے سیلاب ہو، زلزلہ ہو ، الیکشن ہو یا کوئی اور مسئلہ ، اب لوگ جانتے ہیں کہ مسئلے کا حل اس کے ہاتھ میں ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔ اور جس کے ہاتھ میں سٹیرنگ ہے۔ فوجی اور سفارتی دونوں حلقوں میں علامتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ “علامتی” طور پر جو کام کیا جائے وہ بے حد معنی رکھتا ہے۔ گوادر شاہراہ کے افتتاح میں آرمی چیف نے وزیر اعظم کی گاڑی کو ڈرائیو کر کے قوم کو پیغام دیا ہے کہ ہم دونوں ایک ہیں۔ انگریزی محاورے کی رو سے ہمارا “پیج”ایک ہی ہے۔ بین السطور میں علامتی زبان کچھ اور کہتی ہے۔ خدا ڈرائیونگ سیٹ کو سلامت رکھے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔