نوائے دل ….ویلنٹائن ڈے

….اسداللہ حیدر چترالی

ایک وقت تھا کہ دنیا مسلمانوں کو بت شکن کے نام سے جانتی تھی ،یہ شکن تو اب بھی ہمارے نام کے ساتھ موجو د ہے لیکن سابقہ بدل گیامثلااب ہم ہیں قانون شکن، اخلاق شکن ،وعدہ شکن اور نہ جانے کیاکیاشکن بن گئے اور پھر ہمارے ماتھے پر تو ہر وقت شکن موجو د رہتی ہے کوئی ہمار ی بات سے جائز اختلاف کرلے ہمارے من کے خلاف بات کردے ،قانون پرعمل کرنے کی بات کرلے، فرائض کی ادائیگی کا احساس دلائے تو ہمارے ماتھے پر فورا شکن آجاتی ہے بحیثیت قوم ہمارا حال یہ ہے کہ زیادہ تر وقت تخریبی سوچ،خیالی پلاؤ پکانے اور فضول رسموں میں گزار دیتے ہیں ،میر اتھن ریس ،ویلنٹائن ڈے ،بسنت اور اپریل فول جیسی انتہائی نامعقول اور قبیح رسموں کے ہم رسیا ہوچکے ہیں ۔ اگر کو ئی ان رسموں کی قباحت بیان کرے تو ہمیں اپنادشمن دکھائی دیتا ہے اور ہم اسکو کھری کھری سنانے میں دیرنہیں کرتے ۔تو جناب آج ہم بھی ایک اور ایک شکن کاانتظام کئے دیتے ہیں کیونکہ ہم نے ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘جیسی انتہائی فضول اور احمقانہ رسم کے خلاف قلم اٹھانے کاجو فیصلہ کر لیاہے ۔ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیاہے اوریہ کب سے منایا جارہا ہے ؟ اس کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ روم کے بادشاہ کلاڈیس دوم کے قت میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اوریہ عالم ہواکہ ایک وقت کلاڈیس روم کی اپنی فوج کے لئے مردوں کی بہت کم تعداد آئی ۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اورہم سفروں کو چھوڑ کر پردیس جانا پسند نہ کرتے تھے ۔ بادشاہ کلاڈیس نے یہ حل نکالا کہ ایک خاص عرصے کے لئے شادیوں پر پابندی لگادی جائے ۔ تاکہ نوجوان فوج میں داخل ہوسکے اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ ماریس کے ساتھ مل کر خفیہ طورپر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا۔ ان کا یہ مقصد چھپ نہ سکا ۔ لہذا کلاڈیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کر لیاگیا ۔ اذیتیں دے کر 14فروری 269ء کو قتل کردیاگیا۔ لہذا 14فروری ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کے لئے معتبر ومحترم دن قرارپایا۔اسی طرح ایک اورواقعہ ملتاہے سینٹ ویلنٹائن نام کا ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا ۔یہ بشپ آف ٹیرنی تھا ۔جسے عیسائیت پر ایمان کے جرم میں 14فروری 269ء کو پھانسی دے دی گئی تھی ۔کہاجاتاہے کہ قید کے دوران بشپ کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اوروہ اسے محبت بھرے خطوط لکھا کرتاتھا اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن کہا جاتاہے ۔ چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتاتھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یاد گار کا رتبہ حاصل ہوگیا اوربرطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اورمحبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط ،پیغامات ،کارڈز اورسرخ گلاب بھیجنے کارواج پاگیا۔رفتہ رفتہ یہ قبیح رسم مسلمانوں میں بھی رواج پاگیا اورمسلمان لڑکے لڑکیاں بھی اس دن کو مناتے ہیں اورپھولوں اورتحائف کا تبادلہ کیا جاتاہے اورپھر اسلامی اوراخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ اورشریعت کے احکام کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اوراس بے ہودہ اور بے حیائی کو محبت کا نام دیتے ہیں جو کہ سراسر ظلم ہے ۔
ویلنٹائن ڈے مناکر بے حیائی کو فروع دینے سے پہلے ذرااس آیت قرآنی پر غور کریں ۔اللہ تعالی کاارشاد ہے :
’’ان الذین یحبّون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنو الھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ ۔واللہ یعلم وانتم لا تعلمون‘‘(سورۃ النور آیت نمبر 19)
ترجمہ:’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کو دنیا اورآخرت میں درد ناک عذاب ہوگا اورخدا جانتا ہے اورتم نہیں جانتے ‘‘۔
اسی طرح حدیث میں ہے ’’جب تم میں شرم وحیانہ ہوتو جو جی چاہے کرو‘‘(بخاری)
اسی لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھر پھر اپنے ملک کی فضا کو بے حیائی سے پاک کرنے کی کوشش کریں ۔اس فضا میں جو پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں ان کو بھی باہر نکالیں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے جو اثرات فرنگی دور میں ہمارے ملک میں داخل ہوگئے ہیں ان کو بھی ملک بدر کریں ۔لہذا آئیے ہم مل کر اس کے لئے کوشش کریں ۔اللہ تعالی ہمیں شریعت محمدی کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔