نوائے دل….چترال کا پہلا بی ایڈ …

……..اسداللہ حیدر چترالی

گذشتہ روز میں حسب معمول کلاس سے فارغ ہوکر دفترگیا تو وہاں میرے نام سے ڈاک موصول ہوئی ۔ کھول کر دیکھنے پر معلوم ہواکہ میرے بی ایڈکا رزلٹ کارڈ ہے ۔اللہ کے فضل وکرم سے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کر چکا تھا ۔نتیجہ دیکھتے ہی میرے ذہن میں مرحوم داداجی الحاج جناب شاہ گردش کرنے لگے جن کو چترال میں سب سے پہلے بی ایڈ کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔اوراسی طرح ریاست چترال کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کا شرف بھی آپ کے سر ہے ۔ آپ نے چترال کی حسین وادی تریچ ذوندرانگرام میں محمد عارف کے گھر میں آنکھ کھولی ۔محمد عارف ان بہادر نوجوانوں میں سے تھے جو غیرت ایمانی اورجذبہ جہاد کو کل اثاثہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے ایسے جذبے اورہمت کی مثال قائم کی ،انہوں نے نہ صرف اپنوں سے داد تحسین وصول کی بلکہ دشمن بھی آپ کی بہادری اورجوانمردی کے معترف ہوئے ۔ جنگ بریکوٹ میں آپ نے کئی فقید المثال کارنامے سرانجام دیے اورآخر کار آپ شہید ہوئے ۔ یقیناًمحمد عارف کا نام تاریخ چترال میں سنہرے حروف سے لکھاجائے گا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
بنا کردند بخاک وخون علطیدن
جناب شاہ مرحوم کا تعلق چترال کے معزز قبیلہ ماجہ خیل سے تھا۔محترم غلام مرتضی تاریخ چترال صفحہ نمبر336میں لکھتے ہیں :’’جناب شاہ قوم ماجہ خیل کے چشم وچراغ تھے ۔اس قوم کا مورث اعلی ماج تھا ۔ اسی نسبت سے یہ قوم ماجہ یاماژے سے مشہور ہوئی ۔ اس قوم کا حوالہ رئیسے دور سے موجود ہے اوراس کے اسلاف بڑے اہم حیثیت کے مالک رہے ہیں ‘‘جس وقت آپ کے والد گرامی شہید ہوئے اس وقت آپ نومولود تھے ۔ والد کا سایہ شفقت آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا مگر میں قربان جاؤں اس عظیم ماں پر جنہوں نے بڑی بڑی مشقت اورمصائب سے دوچار ہونے کے باجود اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا تہیہ کیا۔عظیم ماں نے اپنے بچے کی تعلیم وتربیت اوران کے اندر سے جوہر اوراخلاق وکردار اجاگر کرنے کے لئے بڑا اہم کردار ادا کیا۔والدہ کی تعلیم وتربیت کا بہت زیادہ اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑا کہ وہ تمام عمر ان کی نصیحتوں کا تذکرہ بڑی محبت سے کیاکرتے تھے اوران پر عمل کرتے تھے ۔ والدہ ماجدہ کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے وہ ناصر ف اپنے آباؤاجداد کا نام روشن کیا بلکہ قوم اورملک کے لئے بھی سرمایہ افتخار بن گئے ۔جب آپ نے ہوش سنبھالا تو آپ کو پشاور میں تعلیم حاصل کرنے لئے بھیجا گیا ۔انہوں نے پشاور کے مختلف سکولوں میں پڑھا ۔آپ انتہائی ذہین وفطین تھے ۔اپنی ذہانت اورخداداد قابلیت کے بل بوتے پر تمام کلاسوں میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اورپھر آپ کو اسلامیہ کالج میں داخلہ مل گیا ۔ گریجوایشن اعلی نمبروں سے پاس کیا تو ان کی اس وقت کی رائیل انڈین ائرفورس میں بطور پائلٹ سیلکشن ہوگئی ۔مگر اس وقت کے نیک دل اورعلم دوست بادشاہ ہزہائی نس محمد ناصر الملک آپ کے انتظار میں تھے کہ تعلیم مکمل کرکے واپس آئیں اورچترال میں تعلیم کا انتظام وانصرام سنبھالیں ۔شاہان چترال کے اصرار پر ائیرفورس جوائن نہیں کیا اور تربیت اساتذہ کا پروگرام بی ٹی جسے آج کل بی ایڈ کہا جاتاہے میں داخلہ لیا ۔ بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب چترال آئے تو محمد ناصر الملک وفات پاچکے تھے ۔اوران کے بھائی مظفر الملک تخت چترال کے تاجدار بن چکے تھے ۔محمد مظفر الملک بھی آپ کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔انہوں نے وزارت تعلیم کا محکمہ آپ کے سپرد کردیا۔ جن کے ذمہ تمام چترال میں سکولوں کا سلسلہ پھیلانا اوران کی نگرانی تھی ۔ آپ نے اس کے لئے رات دن محنت کی اورضلع چترال کو تعلیمی طور پر ایک مضبوط اورمستحکم تعلیمی بنیاد فراہم کی۔ ہزہائی نس محمد ناصر الملک نے علم کا جو شمع روشن کیا تھا اسے گھر گھر پہنچانے کا سہرا مرحوم جناب شاہ صاحب کو حاصل ہے۔مرحوم نے بحیثیت وزیر تعلیم چترال کے کونے کونے میں سکول کھول کر علاقے سے جہالت کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔آج ضلع چترال جو کہ پورے صوبے کے26 اضلاع میں تعلیم کے میدان میں دوسرے نمبر پر ہے اس میں کلیدی کردار جناب شاہ صاحب ہی کا ہے۔آج کل چترال نے عصری تعلیم کے سلسلے میں جو کچھ حاصل کیاہے وہ آپ کی مرہون منت ہے ۔ مہترِ چترال کے 1963ء میں قائم کردہ مڈل سکول چترال سے جونہی طلبہ مڈل پاس کرکے فارع ہونے لگے انہیں گلیوں،بازاروں یا مسجدوں میں یا ان کے گھر کے پتے پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر درس و تدریس کے پیشے سے منسلک کرکے چترال کے دور افتادہ خطوں میں سکول قائم کرکے خطے میں علم کی روشنی پھیلائی۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ حکومت پاکستان نے ان کو ان کی گرانقدر خدمات کے صلے میں ان کو تمغہ خدمت سے نوازا۔آپ حسن اخلاق اورکردار کی دولت سے مالامال ،خوش گفتار ،خوش اطوار اورعجزوانکساری کے ساتھ طبع سعید رکھتے تھے ۔ ذہانت وفطانت اورفہم وفراست سے لبریز ذہن رسا رکھتے تھے ۔انہی خوبیوں اوراوصاف حمیدہ کی بدولت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے آپ کے گرویدہ تھے ۔ محترم علی جبار خان لکھتے ہیں کہ :’’سابق ریاست چترال کے پاکستان کے الحاق کے بعد یہاں ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھل گئے تھے تعلیم کے محکمے میں تقرریوں کا جال بچھا ہوا تھا دوسرے تمام محکموں میں گودام کلرکوں کے پاس رشوت کے انبار لگ گئے تھے۔تحصیلداروں،پولیس کے افسران اور محکمہ تعمیرات عامہ کے عملے کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔مگر صاحب موصوف نے درس و تدریس کے پیشے کو اس حد تک کرپشن سے پاک مثالی ادارہ بنایا کہ جس کی روایت بہت عرصہ بعد تک بھی قائم رہی۔آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی سیرت کو زندہ کرکے اس طرح مثالی کردار ادا کیا کہ کسی استاد کے ہاتھ سے بطور رشوت ایک کپ چائے بھی نہیں پی۔سکول کے معائنے کے بعد استاد کو یہ ہدایت کی کہ بیٹا جاو اپنا سکول سنبھالو مجھے رخصت کرنے یا چائے پلانے کے لیے نہ آنا۔اس زمانے میں سفر کی آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں یہاں تک کہ ندی نالوں اور دریاؤں پر پُل بھی نہیں بنے تھے۔آپ کو ایک وادی سے دوسری وادی جانے کے لئے سنگلاخ پہاڑوں سے گزرناہوتا۔ان پہاڑوں سے گزرتے ہوئے دوربین کے ذریعے اساتذہ کی حاضری کا جائزہ لیتے۔اوریہ معلوم کرتے کہ استاد کس وقت سکول آتا ہے اور کس وقت سکول بند کرتا ہے۔آپ بڑے بڑے تبادلے خود کرتے۔تقرریوں کے آڈر لوگوں کے گھروں میں بھیجتے لیکن اس تمام سرگرمی میں نہ رشوت،نہ سفارش اور نہ ہی رشتہ داروں کا واسطہ ہوتا۔صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تمام کام سرانجام پاتے۔‘‘
اللہ تعالی نے موصوف کو علم وفضل کے ساتھ ظاہری وجاہت سے نوازاتھا ۔اللہ تعالی نے آپ کو بہت زیادہ رعب دبدبہ سے نوازا تھا ۔آپ نہایت مدبر اورزیرک انسان ہونے کے ساتھ انتہائی عقلمند اورصاحب دانش انسان تھے ۔چترال کے لوگ الحاج جناب شاہ جیسی شفیق اورمہربان ہستی کو زندگی بھر بھلا نہ پائیں گے ۔
آتی ہی رہے گی سداتیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتاہی رہے گا
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
بنا کردند بخاک وخون علطیدن
جناب شاہ مرحوم کا تعلق چترال کے معزز قبیلہ ماجہ خیل سے تھا۔محترم غلام مرتضی تاریخ چترال صفحہ نمبر336میں لکھتے ہیں :’’جناب شاہ قوم ماجہ خیل کے چشم وچراغ تھے ۔اس قوم کا مورث اعلی ماج تھا ۔ اسی نسبت سے یہ قوم ماجہ یاماژے سے مشہور ہوئی ۔ اس قوم کا حوالہ رئیسے دور سے موجود ہے اوراس کے اسلاف بڑے اہم حیثیت کے مالک رہے ہیں ‘‘جس وقت آپ کے والد گرامی شہید ہوئے اس وقت آپ نومولود تھے ۔ والد کا سایہ شفقت آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا مگر میں قربان جاؤں اس عظیم ماں پر جنہوں نے بڑی بڑی مشقت اورمصائب سے دوچار ہونے کے باجود اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا تہیہ کیا۔عظیم ماں نے اپنے بچے کی تعلیم وتربیت اوران کے اندر سے جوہر اوراخلاق وکردار اجاگر کرنے کے لئے بڑا اہم کردار ادا کیا۔والدہ کی تعلیم وتربیت کا بہت زیادہ اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑا کہ وہ تمام عمر ان کی نصیحتوں کا تذکرہ بڑی محبت سے کیاکرتے تھے اوران پر عمل کرتے تھے ۔ والدہ ماجدہ کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے وہ ناصر ف اپنے آباؤاجداد کا نام روشن کیا بلکہ قوم اورملک کے لئے بھی سرمایہ افتخار بن گئے ۔جب آپ نے ہوش سنبھالا تو آپ کو پشاور میں تعلیم حاصل کرنے لئے بھیجا گیا ۔انہوں نے پشاور کے مختلف سکولوں میں پڑھا ۔آپ انتہائی ذہین وفطین تھے ۔اپنی ذہانت اورخداداد قابلیت کے بل بوتے پر تمام کلاسوں میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اورپھر آپ کو اسلامیہ کالج میں داخلہ مل گیا ۔ گریجوایشن اعلی نمبروں سے پاس کیا تو ان کی اس وقت کی رائیل انڈین ائرفورس میں بطور پائلٹ سیلکشن ہوگئی ۔مگر اس وقت کے نیک دل اورعلم دوست بادشاہ ہزہائی نس محمد ناصر الملک آپ کے انتظار میں تھے کہ تعلیم مکمل کرکے واپس آئیں اورچترال میں تعلیم کا انتظام وانصرام سنبھالیں ۔شاہان چترال کے اصرار پر ائیرفورس جوائن نہیں کیا اور تربیت اساتذہ کا پروگرام بی ٹی جسے آج کل بی ایڈ کہا جاتاہے میں داخلہ لیا ۔ بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب چترال آئے تو محمد ناصر الملک وفات پاچکے تھے ۔اوران کے بھائی مظفر الملک تخت چترال کے تاجدار بن چکے تھے ۔محمد مظفر الملک بھی آپ کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔انہوں نے وزارت تعلیم کا محکمہ آپ کے سپرد کردیا۔ جن کے ذمہ تمام چترال میں سکولوں کا سلسلہ پھیلانا اوران کی نگرانی تھی ۔ آپ نے اس کے لئے رات دن محنت کی اورضلع چترال کو تعلیمی طور پر ایک مضبوط اورمستحکم تعلیمی بنیاد فراہم کی۔ ہزہائی نس محمد ناصر الملک نے علم کا جو شمع روشن کیا تھا اسے گھر گھر پہنچانے کا سہرا مرحوم جناب شاہ صاحب کو حاصل ہے۔مرحوم نے بحیثیت وزیر تعلیم چترال کے کونے کونے میں سکول کھول کر علاقے سے جہالت کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔آج ضلع چترال جو کہ پورے صوبے کے26 اضلاع میں تعلیم کے میدان میں دوسرے نمبر پر ہے اس میں کلیدی کردار جناب شاہ صاحب ہی کا ہے۔آج کل چترال نے عصری تعلیم کے سلسلے میں جو کچھ حاصل کیاہے وہ آپ کی مرہون منت ہے ۔ مہترِ چترال کے 1963ء میں قائم کردہ مڈل سکول چترال سے جونہی طلبہ مڈل پاس کرکے فارع ہونے لگے انہیں گلیوں،بازاروں یا مسجدوں میں یا ان کے گھر کے پتے پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر درس و تدریس کے پیشے سے منسلک کرکے چترال کے دور افتادہ خطوں میں سکول قائم کرکے خطے میں علم کی روشنی پھیلائی۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ حکومت پاکستان نے ان کو ان کی گرانقدر خدمات کے صلے میں ان کو تمغہ خدمت سے نوازا۔آپ حسن اخلاق اورکردار کی دولت سے مالامال ،خوش گفتار ،خوش اطوار اورعجزوانکساری کے ساتھ طبع سعید رکھتے تھے ۔ ذہانت وفطانت اورفہم وفراست سے لبریز ذہن رسا رکھتے تھے ۔انہی خوبیوں اوراوصاف حمیدہ کی بدولت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے آپ کے گرویدہ تھے ۔ محترم علی جبار خان لکھتے ہیں کہ :
’’سابق ریاست چترال کے پاکستان کے الحاق کے بعد یہاں ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھل گئے تھے تعلیم کے محکمے میں تقرریوں کا جال بچھا ہوا تھا دوسرے تمام محکموں میں گودام کلرکوں کے پاس رشوت کے انبار لگ گئے تھے۔تحصیلداروں،پولیس کے افسران اور محکمہ تعمیرات عامہ کے عملے کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔مگر صاحب موصوف نے درس و تدریس کے پیشے کو اس حد تک کرپشن سے پاک مثالی ادارہ بنایا کہ جس کی روایت بہت عرصہ بعد تک بھی قائم رہی۔آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی سیرت کو زندہ کرکے اس طرح مثالی کردار ادا کیا کہ کسی استاد کے ہاتھ سے بطور رشوت ایک کپ چائے بھی نہیں پی۔سکول کے معائنے کے بعد استاد کو یہ ہدایت کی کہ بیٹا جاو اپنا سکول سنبھالو مجھے رخصت کرنے یا چائے پلانے کے لیے نہ آنا۔اس زمانے میں سفر کی آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں یہاں تک کہ ندی نالوں اور دریاؤں پر پُل بھی نہیں بنے تھے۔آپ کو ایک وادی سے دوسری وادی جانے کے لئے سنگلاخ پہاڑوں سے گزرناہوتا۔ان پہاڑوں سے گزرتے ہوئے دوربین کے ذریعے اساتذہ کی حاضری کا جائزہ لیتے۔اور یہ معلوم کرتے کہ استاد کس وقت سکول آتا ہے اور کس وقت سکول بند کرتا ہے۔آپ بڑے بڑے تبادلے خود کرتے۔تقرریوں کے آڈر لوگوں کے گھروں میں بھیجتے لیکن اس تمام سرگرمی میں نہ رشوت،نہ سفارش اور نہ ہی رشتہ داروں کا واسطہ ہوتا۔صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر تمام کام سرانجام پاتے۔‘‘
اللہ تعالی نے موصوف کو علم وفضل کے ساتھ ظاہری وجاہت سے نوازاتھا ۔اللہ تعالی نے آپ کو بہت زیادہ رعب دبدبہ سے نوازا تھا ۔آپ نہایت مدبر اورزیرک انسان ہونے کے ساتھ انتہائی عقلمند اورصاحب دانش انسان تھے ۔چترال کے لوگ الحاج جناب شاہ جیسی شفیق اورمہربان ہستی کو زندگی بھر بھلا نہ پائیں گے ۔
آتی ہی رہے گی سداتیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتاہی رہے گا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔