(رُموز شادؔ )…..’’محبت کی حقیقت‘‘

 ( ارشاد اللہ شادؔ ۔ بکرآباد چترال)
میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا آپ خواہ مخواہ ’’ محبت ‘‘پر ہی کیوں لکھتے ہو؟ کیا دنیا میں اور زندگی کے تلخ حقائق پر مبنی موضوعات نہیں ہیں؟ یا پھر زندگی میرے لئے پھولوں کا بستر کے محاورے پر مبنی شئے ہے؟ میر ا صرف یہی کہنا ہوتا ہے کہ اس عارضی اور فانی دنیا میں صرف ’’ محبت‘‘ ہی وہ دائمی جذبہ ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے ۔ محبت سچی اور پائیدار ہوتی ہے ، اسی لئے اسے زوال نہیں ہے ۔ جو ہمیشہ رہتی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی ہے حالانکہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں لوگ اسے صرف اپنی باتوں میں ذکر کرتے ہوئے صرف قصّے کہانیوں تک محدود کر چکے ہیں اور حقیقت میں اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ حالانکہ یہی لوگ آج بھی اپنی گفتگو میں ہیرا رانجھا ، لیلیٰ مجنون اور شیریں فرحاد وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن محض مذاق اڑانے کیلئے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسی سچی اور پاکیزہ بے لوث محبت کا وجود نا پید ہے۔ واقعی محبت جیسا پاکیزہ اور مقدس جذبہ تو ان ہی عظیم لوگوں کے دلوں میں شفاف پانی بن کر دل کے بے کراں دریا میں بہتا تھا جن کی مثالیں اب صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ‘‘ ۔ آج کل کے مشینی دور میں تو لوگوں نے محبت کو اتنا ارزاں کر دیا ہے کہ یہ گلی کوچوں اور بازاروں کے نکڑوں پر پنپتی نظر آتی ہے اور اس طرح کی تھرڈ کلاس محبت میں سچائی ، خلوص اور احترام کے بجائے صرف دل لگی اور وقت گزاری کے سوا اور کوئی معتبر جذبہ نہیں ہوتا ہے اس لئے لوگ اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اسی گلی کوچوں میں پلنے والی تھرڈ کلاس محبت نے اصل محبت کی پاکیزہ اور مقدس جذبے کے مفہوم کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے ۔ لہذا اب لوگ اس جذبے کی سچائی پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ محبت کیا ہے؟ فقط بے کار لوگوں کا مشغلہ ہے۔ اسی لئے لوگ محبت کو صرف افسانوں اور ڈراموں تک ہی برداشت کر تے ہیں۔
محبت کے موضوع پر کیوں لکھتا ہوں اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ محبت اس دنیا کی اٹل حقیقت ہے اور انسانی زندگی میں اس دلفریب و دلکش حقیقت کی جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے اور جب تک اس روئے زمین پر انسان کا وجود ہے، محبت بھی قائم و دائم رہے گی۔ حالانکہ زندگی کیلئے بے شمار تلخ حقائق میرے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں اور مجھے قلم اٹھانے اور بے رحم زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرنے کی دعوت دیتے ہیں مگر میں پھر بھی ان سفاک حقیقتوں سے منہ موڑ کے محبت ہی کو موضوع بناتا ہوں تو در حقیقت یہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ یہ تلخیاں اور دکھ درد میں لپٹی زندگی تو ہر گھر کے کونے میں پڑی سسک رہی ہوتی ہے پھر کیوں نہ میں زندگی کے روشن اور خوشنما پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے چند لمحون کیلئے اپنی صنف کے تھکے ہوئے تلخ ذہنوں کو تازگی اور آسودگی فراہم کرکے تھوڑی دیر کیلئے دن بھر کے تھکے ماندے جسموں کو مستقل گھر داری کی الجھنوں اور مسائل کی چکی میں پستی حیات سے باہر لا کر زندگی کی کڑوی کسیلی حقیقتوں سے دور ’’ مینٹیسی ورلڈ‘‘ کی رنگ برنگی خوشنما مگر مصنوعی دنیا میں لے جاؤں ۔ جہاں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں رچی بسی تلخیوں اور کدورتوں کو چند لمحوں کیلئے بھول کر ایک صاف شفاف محبتّوں بھری جنت کی سیر کراؤں جہاں صرف سکون ہی سکون ہو، محبت ہی محبت ہو ، اس طرح وہ کمزور و نازک صنف اپنے ذہن و دل کو ترو تازگی و شگفتگی کے احساس سے مخمور ہو کر ذہنی آسودگی حاصل کریں۔
دنیا کا ہر مہذب انسان دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے، جس شخص میں دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا وہ کسی طرح بھی مہذب یا محبت کرنے والا انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا ہے ، کسی کے دکھ درد کا احساس کرنا ہی محبت ہونے کی نشانی ہے ۔معمولی سی باتیں آپ کو بوجھل بھی کر سکتی ہیں اور خوشگوار بھی لیکن اس کا انحصار سمجھداری اور محبت پر ہے ، معمولی باتوں کو جھگڑے کا سبب نہ بنائے اور جناب محبت کرنا سیکھئیے۔محبت تم کو آداب محبت خود سیکھا دے گی۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔