نوائے دل …..شالیمار باغ لاہور کی تاریخی اہمیت

 …..حافظ اسداللہ حیدر چترالی…..

گذشتہ دنوں مجھے اپنے برادر صغیر محمد مالک انس اوراپنے بہت ہی پرخلوص اور محترم دوست جواد احمد سیالکوٹی کے ساتھ شالیمار باغ جانے کا اتفاق ہوا،شالیمار باغ کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی میرے خیالا ت صدیوں پیچھے چلے گئے ۔ یہاں جا کر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان ایک دم سے پرانے بادشاہوں کے زمانے میں لوٹ گیا ہے۔ حالانکہ وقت کے ہاتھوں بہت کچھ مٹ چکا ہے لیکن ابھی بھی یہ مقامات اپنا مسحور کن حسن لیے ہوئے ہیں۔ مجھے پہلی مرتبہ شالیمار باغ جانے کا موقع ملا حالانکہ مجھے لاہور میں تقریبا بارہ سال ہوگئے ہیں ۔اکثر مقامات دیکھے ہوئے ہیں لیکن آج کل میں تاریخ لاہور کا مطالعہ کر رہا ہوں تو مجھے باقی مقامات دیکھنے کی خواہش شدت اختیار کر گئی ہے۔شالیمار باغ کی سیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء۔1642ء میں تعمیر کرایا۔باغ کے گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے۔ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے۔ شمال سے جنوب کی طرف 658 میٹر اور مشرق سے مغرب کی طرف 258 میٹر ہے۔باغ 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے اور تینوں کی بلندی ایک دوسرے سے علیحدہ ہے۔ ایک حصہ دوسرے سے 4.5 میٹر تک بلند ہے۔ تینوں حصے فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔ باغ کو ایک نہر سیراب کرتی ہے۔ باغ میں 410 فوارے ہیں، 5 آبشاریں اور باغ میں آرام کے لئے عمارتیں ہیں اور مختلف اقسام کے درخت ہیں۔اس بات سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ 1981ء میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ اسی باغ کو سیراب کرنے کے لئے مشہور نہر ’’حسلی ‘‘نکالی گئی تھی ۔ یہ نہر مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی۔ حسلی نہر کے آغاز کے تاریخی مقام کی نشاندہی تو ابھی تک نہیں ہو سکی البتہ اس بات پر اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس نہر کی تعمیر کا بنیادی مقصد شالا مار باغ کے مختلف تختوں پر لگائے گئے درختوں اور اگائے گئے پودوں اور گھاس کے وسیع قطعات کی آبیاری کرنا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حسلی نہر کی تعمیر اکبر بادشاہ نے کروائی تھی۔ اس خیال کی نسبت زیادہ مستند بات یہ ہے کہ شاہجہاں کے دور میں شالا مار باغ تعمیر کرنے والے انجینئر علی مردان شاہ نے باغ کی آبیاری کے لیے حسلی نہر کو ڈیزائن کیا۔ مغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ یہ نہر مغلیہ دور کے خاتمے کے ساتھ ہی مناسب صفائی، دیکھ بھال اور ضروری مرمت نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہو کر بند ہوگئی۔ اس نہرکے خشک ہونے کے بعد، شالا مار باغ جوحسلی کے پانی سے سیراب کیا جاتا تھا، اس کی آبیاری بارش کے پانی کی مرہون منت ہوگئی۔تاریخی حسلی نہر کی بحالی کا اس وقت امکان پیدا ہوا تھا جب سکھ فوج کو شکست دے کر انگریزوں نے لاہور پر قبضہ کیا۔ انگریز فوج کے لاہور پر قبضہ کے بعد میجر نیپئر نے سکھ جنگجوؤں کو زرعی سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کی غرض سے جب انہیں نہری پانی کی فراہمی جیسی سہولتیں بہم پہنچانے کے بارے میں سوچا تو اس کی توجہ متروکہ حسلی نہر کی طرف مبذول کروائی گئی۔ میجر نیپئر کی خواہش پر حسلی نہر کر کا سروے کیا گیا۔ سروے رپورٹ میں حسلی نہر کی بحالی کو انگریزوں کے مطلوبہ زرعی مقاصد کے لیے غیر مفید قرار دیاگیا۔ یوں لاہور کی اس تاریخی نہر کی بحالی کا امکان ختم ہو گیا۔ عرصہ تک شالا مار باغ کو سیراب کرتی رہنے والی حسلی نہر خشک ہونے کے بعد اسقدر بے آب ہوئی کہ سک نہر کا نام اس کی پہچان بن گیا۔ تاریخی حسلی نہر کے سک نہر بن جانے کے بعد بارشوں کے موسم میں اس نے برساتی نالے کا کام کیا۔ زرعی زمینوں کے خاتمے اور سک نہر کے ارد گرد آبادیوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ تاریخی آبی گذر گاہ گندے نالے میں تبدیل ہوگئی۔ گندے نالے میں تبدیلی کے ساتھ ہی واسا لاہور نے آبادی کی ضرورتوں کے تحت اس کے بہاؤ کا قدرتی رخ جو شمال سے جنوب کی سمت تھا تبدیل کر کے جنوب سے شمال کی طرف کر دیا۔ واسا لاہور کے لوگ سک نہر گندے نالے کے اصل تاریخی پس منظر سے تو بے خبر ہیں البتہ ان کے ریکارڈ میں یہ ضرور درج ہے کہ سک نہر گندے نالے کا شمار لاہور کے ان پانچ تاریخی برساتی نالوں میں ہوتا ہے جویہاں صدیوں سے قدرتی طور پر بہہ رہے ہیں۔الغرض شالیمار باغ اورحسلی نہر کو تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ دن کے وقت پارک میں لاہورکے شہریوں اورسیاحوں کا تانتا بندھا رہتاہے ۔ پارک میں کئی سیاحوں سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ آج کل کے مشینی دور میں لوگوں کو وقت نکال کر شالیمار باغ کی سیر کے لئے ضرور آنا چاہیے۔پارک میں ہر قسم کے لوگ سیر وتفریح کی غرض سے دور دور سے آتے ہیں ۔ لاہور میں سیروسیاحت کے لحاظ سے ایسے بہت سے مقامات موجود ہیں جو اپنی خوبصورتی اورتاریخی اہمیت کی بنا پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہیں ۔ تمام دوستوں کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب بھی موقع ملے تو شالیمار باغ سمیت لاہور کے تاریخی اورسیاحتی مقامات کی ضرور سیر کریں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔