دھڑکنوں کی زبان…..’’ بدعنوانی ختم کر نے کا نعرہ مستانہ ‘‘

…….محمد جا وید حیات……

انسان غلطی کا پتلا ہے غلطی کر تا ہے نہ کرنے کا عہد بھی کر تا ہے پشیمان ہوتا ہے شرمندہ ہوتا ہے افسوس کرتا ہے پھر غلطی کرتا ہے یہ مخلوق عجیب مخلوق ہے اس کا عجوبہ پن یہ ہے کہ اس کی غلطیاں اس کو نظر نہیں آتیں ۔ دوسروں کو نظر آتی ہیں۔ اس کی اچھا ئیا ں اس کو نظر آتی ہیں دوسروں کونہیں آتی ہیں ۔اس لئے انسان ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتا ہے زندہ قومیں سبق سیکھتی ہیں پھر بحیثیت قوم غلطیاں نہیں دھراتیں ۔ آجکل اردو زبان کے بہت سارے الفاظ ، مرکبات اصطلاحات بے وقعت ہوگئیں ہیں، ’’ بد عنوانی ‘‘ گہرا معانی رکھتا تھا ۔ اسکی بجائے ،کر پشن ، آگیا ہے ۔’’ بدعنوانی‘‘ تلخ گالی لگتا تھا یہ لفظ’’ کرپٹ ‘‘ عام سا لفظ لگتا ہے اور یہ ادا کر تے ہوئے ہم کندھوں کو اچکا تے بھی ہیں ۔’’ بدعنوانی ‘‘ خیانت سے شروع ہوتا ہے اور آگے تک جاتا ہے جس کا اخری حد شاید ’’ غداری ‘‘ ہے جو بے غیرتی کی بھی آخری حد ہے انسان جب اپنے آپ سے ، اپنے بھائی بند ھوں سے ، پھر اپنی قوم سے اور ساری انسانیت سے مخلص ہو تو اس کی ذات سے یہ داغ مٹ جاتاہے ۔وہ صاف ہوتا ہے ۔یہ ’’ بد عنوانی‘‘ گھن ہے یہ کیڑا ہے جھڑوں کو کاٹتا ہے تنوں کو کھو کھلا کرتاہے فخر موجودات ؐ کے لائے ہوئے دین نے پہلے اس چیز کی بیخ کنی کی ۔تب انصاف ، امن ، انسانیت کی قدر ، عدل اور خوشحالی آگئی ۔ ہم بحیثیت قوم اس ’’ لت ‘‘ کا شکار ہیں۔ یہ ذات سے افراد، افراد سے گھروں ، گھروں سے اداروں اور اداروں سے قومی شناخت تک میں سرایت کرگئی ہے ۔یہ ایک گالی ہے کوئی بھی اس کا سننا بالکل پسند نہیں کرے گا مگر عملی طور پر اس کا شکار ہوگا اور اسکو بر ا بھی نہیں سمجھے گا ۔ ہر سال ہم بد عنوانی کے خلاف ’’ ہفتہ ‘‘ مناتے ہیں نشاندہی کرتے ہیں ۔لعن طعن کرتے ہیں عزم کرتے ہیں اس کی تباہ کاریاں گنواتے ہیں نتائج کی مثالیں دیتے ہیں مگر پھر بھول جاتے ہیں ہم گفتار کے غازی لوگ پھر سے ایسا کرتے ہیں ۔عملی طور پر ہم سے ’’ بد عنوانی ‘‘ کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ فکر اخرت اور جذبہ ایثار ایسے جذبے ہیں جو انسان کی ذات اور اس کے کردار کو نکھار تے ہیں ۔ہمارے پاس یہ ’’ زیور ‘‘ نہیں ذات کیا نکھریں اخلاص کیا سدھریں۔ اس سال بھی ’’ بدعنوانی ‘‘ کے خلاف مہم زور و شور سے جای ہے ۔ واک ، سیمنا ر، اگاہی مہم ، کالمز، تقاریر ، لیکچرز، سیاسی بیانات ، ارباباں اقتدار کے عزائم ۔۔ ملک کئی دن سے ان الفاظ کے دھوان دھار گونج سے گونج رہا ہے ۔ مگر نتیجے کا علم اللہ کو ہے
سوچتا ہوں کہ ایک سیمنار ایسا بھی منعقد کی جائے جس میں امیران شہر اور صاحباں تاج و حشم والے ہوں اختیارات کے بے تاج بادشاہ ہوں، ، خطابت کے شا ہنشاہ ہوں، قلم کے دھنی ہوں غریباں شہر بھی ہوں ۔ کچکلا ہ ہوں، تیرہ بخت ہوں کلموہی ہوں ، مقہور ، مجبور ، محروم بھی ہوں ،۔سٹیج پر دو بچیوں کو لاکر بٹھائی جائیں ۔ا ن کی آنکھوں میں آنسو ہو ں دونوں سراپا سوال ہوں۔ دونوں کے کپڑوں پرپیو ند ہوں۔دونو ں کے بال بکھرے ہوئے ہوں اور پاؤں سے ننگے ہوں ۔کسی لمبی چوڑ ی تقریر ، کسی پرمغز لیکچر کی۔کسی پرزنٹیشن کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ایک بچی سے پوچھا جائے کہ کیا ہوا؟ وہ کہے سیلاب میں گھر بار لٹ گیا ماں باپ چلے گئے پر سان حال کوئی نہیں ۔کھلے آسمان تلے ہوں ۔ امدادی ساماں مجھ تک نہیں پہنچیں ۔ میری آواز کسی تک نہیں پہنچی ۔ افسردہ ہوں مگر ارض پاک کا باشند ہ ہوں قوم کی بیٹی ہوں ۔مگر زند گی کے سامنے شر مندہ ہوں۔ اس زندگی کی تشریح کوئی کرے اس کا معنی مطلب مجھے سمجھائے ۔۔ دوسری کھڑی ہوجائے ۔ کہدے کہ زلزلہ آیا ۔ گھر ڈھ گیا ۔ ابو اپا ہچ ہوگئے ۔کسی نے فہرست تک نہیں بنائی ، کسی نے نام تک نہیں لکھا نہ جزوی تباہ ، ‘‘ لکھا ’’ نہ پو را تباہ ‘‘ لکھا جو ’’ تباہ ‘‘ نہیں ان کو ’’ تباہ ‘‘ لکھا ۔۔ انگریزی کا کوئی لفظ زبان زد عام ہوا ’’ ڈیمچ‘‘ کا مفہوم تو مجھے نہیں آتا ۔ مجھے کسی عہد ے ، کسی کی جائیداد ، کسی کی خوشحال زندگی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کوئی مجھے سمجھائے کہ یہ زندگی کس چیز کا نام ہے اس کا مفہوم کیا ہے ۔۔۔ اتنے میں ہال میں ہلچل ہو کوئی بوڑھا لنگڑا کے سٹیج پر آجائے کہدے کہ ’’ پنشن ‘‘ کا کیس ہے ۔زندگی ختم ہوگی کیس ختم نہیں ہوتا ۔ نوجوان آئے کہد ے NTS دیا ہے پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا ۔ ایک دیہاتی کھڑا ہو اجائے ۔ کہدے گاؤں کا راستہ بنتانہیں ۔ انتظا ر میں زندگی ختم ہوگئی ۔ دوسرا کھڑا ہوجائے ۔ تیل ارزان ہوگیا کرایوں میں مزید اضافہ ا ہو رہا ہے ۔پولیس کد ھر ہے ۔ایک بچہ کھڑا ہوجائے ۔کہدے استاد ، کلاس روم میں سبق نہیں پڑ ھا تا دوسرا کھڑا ہوجائے کہد ے کہ امتحان میں نقل ہوتی ہے ۔میری تیاری اکارت جاتی ہے ۔۔ اسی طرح زمہ دارو ں اور قصور واروں کو اسٹیج میں لوگوں کے سامنے قطار میں کھڑا کیاجائے ۔ ان کی غفلت کانوٹس لیاجائے ۔ احتساب کڑا کیا جائے ۔ان کو اپنے اقبال جرم کی جراٗ ت ہو۔قانون میں اتنی طاقت ہو کہ اس کے سامنے سب کے سر جھک جائیں ۔رعایا کو حکمرانوں پہ بھروسہ ہو حکمرانوں کو رعایا کے لئے درد کی شد ت ہو ۔ تب ’’ بد عنوانی ‘‘ گالی بن جاتی ہے ۔ رک سکتی ہے۔ بیخ و بن سے اکھڑ سکتی ہے دنیا نے یہ معیا ردیکھی ہے ۔تاریخ میں یہ مثال موجود ہے ۔خلیفہ المسلمین کی مجلس ہے ۔ خلیفہ خطبہ دے رہے ہیں ایک صحابیؓ کھڑے ہوتے ہیں ۔الفاظ پر غور کرو پوچھتے ہیں ’’ خطاب کے بیٹے ! ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے ۔اعتراض صرف ایک چادر پر ہے ۔ْخلیفہ المسلمین اپنی صفائی پیش کرتے ہیں ۔ْصحابیؓ کا دوسرا جملہ دیکھو۔۔۔ خلیفہ المسلمین ا ب جو حکم دیدیں جان حاضر ہے۔۔۔ ہائی رے اسلام ’’ خطاب کا بیٹا ‘‘ دوسرے لمحے خلیفہ المسلمین بن جاتے ہیں اور خلیفہ المسلمین دوسرے لمحے ’’ خطاب کا بیٹا بن جاتے ہیں اسیکو فیصلہ کہتے ہیں اسکو قانون اور انصاف کہتے ہیں اسی کو ’’ حاکم اور اسی کو رعایا کہتے ہیں ۔آج اسی امت کے وارث یورپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ مثالیں دے رہے ہیں ۔سوال ہے کہ وہ جراٗ ت ، حوصلہ ہم پیدا بھی کر سکیں گے یاصرف تقریر کرتے رہیں گے ۔خالق کائنات نے تو فرمایا ۔۔ اللہ کے نزدیک سخت ہے وہ جو بات جو تم کہتے ہو اور کر تے نہیں ہو ‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔