دھڑکنوں کی زبان ……’’ نظر انداز مت کرو‘‘

…….تحریر محمد جاوید حیات …….

ارے پھول دیکھنے والی اکھیو کانٹوں کو نظر انداز نہ کرو۔ یہی پھول کی اصل حقیقت ہیں۔۔۔خوبصورتی چہرے میں ہو یا تاج محل میں خوبصورتی ہے۔مگر چہرہ تکنے والو ان بجھے معصول چہروں کو نظرا نداز مت کرو۔یہی اصل حقیت ہیں ۔۔۔چمکتی آرام دہ، عطر بھری، صوفہ لگی ، موزک چلی گاڑیاں استعمال کرنیوالو، پک ڈنڈیوں میں رینگتے ، رولتے ، لنگڑا تے ، تھکے ہارے ا ور چلتی گاڑیوں کی طرف دید ہ افسردہ سے دیکھنے والوں کو نظرا ندازمت کرو۔ یہی اصل حقیقت ہیں۔۔۔ آرام دہ صوفوں میں سامنے سجی میزوں پر لگی انواع اقسام کے کھانوں سے ناشتہ کرنیوالو، کالی چائے کے ساتھ خشک روٹی باورچی خانے میں ’’ سندلی ،،میں بیٹھ کر خلق سے اتارنے والوں کو نظر انداز مت کرو ۔ یہی اصل حقیقت ہے ۔۔اپنے بچوں کو آساشؤں کی آخری ممکنات میں رکھنے والو اپنے بھائی بندھوں کے بچوں کو نظر انداز نہ کرو جو تمہارے بچوں کے سامنے دبکے بیٹھتے ہیں شکستہ رہتے ہیں ۔۔چمکتی کرسی والو اپنے دفتر کے سامنے کھڑے اس چوکیدار کو نظر انداز نہ کرو جوتجھے صاحب صاحب کہتے تھکتا نہیں ۔۔اپنے کلاس روم میں مضمون کی ہوا باند ھنے والے اساتذہ کرام اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ان بچوں کو نظر انداز نہ کرو جن کو تیری تقریر کی نہیں تیری تربیت کی ضرورت ہے ۔۔جوانی کی مستی میں مد ہوش چاند چہر و ! اپنی قد کاٹ پر فخر نہ کرو ان جھکی کمروں اور بجھے چہروں کا احساس کرو ۔ جو جوانی کی مستی سے گذرے ہوئے ہوں ۔۔ نہ کرو نظرا نداز نہ کرو۔۔ غریب کی آہ کو ، شکست کی آرزو کو ، والدین کی دعا کو ، بچوں کی مسرت کو ، اچھوں کی اچھائی کو ، بُروں کی بُرائی کو ،پرخلوص کے خلوص کو ، عزت دینے والے کے احترام کو ۔پیار کر نے والے کے پیار کو ، تکنے والے کی آنکھوں کو ، پکارنے والے کے الفاط کو ، یاد کرنے والے کی یادوں کو ، رشتہ دار کے رشتے کو ، دوست کی دوستی کو ، صحت میں بیماری کو ، خوشحالی میں بدحالی کو ،اسودگی میں افسردگی کو ، امن میں بدامنی کو ۔غافیت میں بے چینی کو نظر اندا ز نہ کرو ۔۔ یہ زندگی ناٹک ہے ۔پل پل دوسرا سین ہے ۔لمحہ لمحہ پر پردہ ہے پردہ گرتا ے ۔پر دہ اُٹھتا ہے ۔کوئی گرینٹی نہیں۔اگر تمہارے پاس دوسروں کو دینے کو کچھ نہیں تو کم از کم مسکراہٹ تقسیم کرو۔۔ اپنے آپ کو بچھاؤ ، برتری کا بت تو ڑو، غرور کا محل گراؤ، اکٹر خانی ڈھادو، اس دائر ے ، میں آجاؤ جہاں سے انسانیت شروع ہوتی ہے اور یہیں پہ ختم ہوتی ہے ۔۔ یہ سب سے بڑی ڈگری ۔سب سے بڑی کرسی، سب سے بڑا عہد ہ ہے۔آنسو ’’ قہقہے ‘‘ سے بہتر ہیں۔’’ پکار‘‘ للکار سے اور ’’ اقرار ‘‘ انکار سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ماں کے دو پٹے کا پلو زربفت وکمخواب سے بہتر ہے ۔جس سے تمہارے آنسو پونجھے جاتے تھے ۔۔۔اس ہاتھ کو بوسہ دو جو تمہارا تکیہ ہوا کرتا تھا۔ ۔ ان کاندھوں پہ طواف کرو جو تمہارے سواری تھے ۔۔ اس ہاتھ کو سلام کرو جس نے تمہارے ہاتھ میں قلم دیا تھا ۔ ۔۔نہ کرو بارش کے قطروں کو نظر انداز نہ کرو۔ سیلاب کی موجوں کو بھی انظر انداز نہ کرو ۔چاندنی رات میں رات کے اند ھیکاروں کو نظر انداز نہ کرو۔ چاند ڈوبے گا۔ تو پھراندھیرا ہوگا ۔ اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے اپنے بچوں کے چاند چہر وں کو تکتے ہوئے برفانی تودے کے نیچے دبے ہوئے ان پھولوں کو مت بھولو جو ا پنے والدین کے لئے آزمائش ہیں یہ آزمائش کسی پر بھی آسکتی ہے اور اس کو آتے ہوئے دیر نہیں لگتی ۔ اس برف میں کھڑے نوجوانوں اور افیسروں کو نظر انداز نہ کرو۔ جن کی فرض شناسی کے راستے میں کوئی گلیشر روکاؤٹ نہیں بن سکتی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔