ہم کردار کے آئینے میں

…….تحریر: اقبال حیات آف برغذی……..

جمعتہ المبارک کے دن خطیب مسجد کی طرف سے حقوق العباد پر سیر حاصل اور عالمانہ تقریر سننے کے بعد نماز کی ادائیگی سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر اپنے ایک رشتہ دار کی نماز سے فراغت کا منتظر رہا۔نمازی جوق درجوق مسجد سے نکلتے رہے اور صاحب موصوف نے دیر کردی۔اندر جاکر دیکھا تووہ انگشت شہادت دانتوں میں دبائے کھڑا ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ آھ بھرتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’یارمیرے نئے جو تے کوئی اُٹھا کرلے گیا۔میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا۔آخری نمازی بھی مسلمان کے کردار پر فاتحہ خوانی کرنے اور ہمارے ساتھ ہمدردی کے چند بول کہکر جانے کے بعد مسجد خالی ہوئی تو میرے عزیز نے اپنے مہربان مسلمان بھائی کے چھوڑے ہوئے ٹوٹے چپل میں پاؤں ڈال کر سر کُھرچتے ہوئے میرے ساتھ باہر نکلے اور مجھے مخاطب کرکے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ یار اس کردار کے مالک کے مسلمان کی اغیار کے ہاتھوں پٹائی ہونے میں اچھنبے کی کیا بات ہوگی۔یہ جملہ قرآن پاک کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے۔اور مومن سرکاردوعالمﷺکی مبارک زندگی کے نمونے کا حامل ہوتا ہے۔مگر بدقسمتی سے اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کی کوئی رمق ہمارے وجود میں نظر نہیں آتی۔مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دینے کے اسلامی تصورکی حالت یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی کھال اتارنے سے بھی احتراز نہیں کرتا۔ہرشعبہ حیات جہاں بدکرداری اور بدعنوانی کی غلاظت سے متعفن ہے وہاں مذہب کے تقاضوں سے بغاوت کا یہ عالم ہے کہ خانہ خدا کے اندر چوری جیسے قبیح فعل کے ارتکاب سے بھی مسلمان نہیں چوکتا۔اور حجتہ الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام کے اس درس کا بھی لحاظ نہیں رکھتا جس میں مسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو کو دوسرے مسلمان کے لئے حرام قرار دیا ہے۔اور ضمیر بھی اس حدتک مردہ ہوچکی ہے کہ حرام کی کمائی سے زیر استعمال گاڑی میں ٹھاٹ کے ساتھ پھرنے ،عالیشان مکان میں زندگی کے شب وروز گذارنے ،چوری کے جوتوں کو پہننے ،اتارنے اور چلنے پھرنے کی حالت میں نظر آنے پر ضمیر کی ملامت اور شرم وحیا کا احساس نہیں کرتا۔نہ اس غیر شرعی وغیر اخلاقی کردار کے مواخذے کے تصور کی علامت دکھائی دیتی ہے۔اور نہ ہی غیر مذہب کے لوگوں کی جگ ہنسائی پر غیرت ایمانی انگڑائی لیتی ہے۔
تاریخ اسلام کے آئینے میں جب ہم اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو بطور مسلمان خود کو پہچاننا مشکل معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ ہماری تاریخ کردار کے اوصاف سے مزین اور اسلام جیسے عظیم مذہب سے وابستہ افراد حکم خداوندی سے سرموانحراف کو ناقابل تلافی نقصان گردانتے ہیں۔مالک بن دینارؓ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک شخص کے قریب سے ہوا۔وہ شدید سردی میں ایک پھٹی قمیض پہنے ہواتھا۔اور کسی فکر میں مبتلا کھڑا اپنا پسینہ دامن سے صاف کررہا تھا۔میں نے اس شخص سے اس قدر پریشانی کی حالت میں وہاں کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ حضرت یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھ سے ایک زمانے میں گناہ سرزد ہوا تھا۔جس کے تصور سے میرا خون خشک ہورہا ہے۔اور خداوند قدوس سے شرم وحیا کی وجہ سے میرے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔گناہ کی نوعیت کے بارے میں دریافت پر اس شخص نے کہا کہ ایام جوانی میں یہاں ایک خاتون کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر نظر کی خیانت کا مرتکب ہوا تھا۔
یہی وہ کردار تھا جس کے حامل افراد کی ہیبت ایمانی سے قیصروکسریٰ جیسی استبدادی قوتیں سرنگوں ہوئیں اور کردار کے برعکس عمل کا شاخسانہ یہ ہوا کہ آج پوری دنیا میں باطل قوتوں کے سامنے ذلیل وخوار ہونے کا مند دیکھنا پڑرہا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔