تورکھو کی سیاست میٹرنٹی کئیر سینٹر تک محدود ؟؟؟

…….ذاکر محمد زخمیؔ تورکھو حال بونی ۔………

کسی زمانے میں تحصیل تورکھوہوشیار،معاملہ شناس اور فہم و فراست والے لوگوں کی بستی ہوا کرتا تھا ۔یہاں کے لوگوں کو یہ اعزاز حاصل تھی کہ ہر امدہ مسلے کو باہمی افہام و تفہیم اور سنجیدگی سے لیا کرتے اور احسن طریقے سے نبھاتے تھے ۔ان میں اتفاق و اتحاد اور رواداری کے جملہ صلاحیتیں موجود تھی ۔انا کی بُت درمیاں حائل نہیں تھی ایک دوسرے کو قبول کرکے اپنے مسائل حل کرانے میں ان کا ثانی نہیں ملتا کوئی مانے یا نہ مانے کسی زمانے میں استارو سے شاگرام تک کا جیب ایبل روڈ اپنی مدد آپ کے تحت بنانے کا اعزاز انہی عوام کو حاصل تھی ۔ یہ ان کی اتفاق کا ہی نتیجہ تھا ۔کہ اس علاقے کے دو سپوت تین بار صوبائی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے یہاں صرف بہترین حکمت عملی اور علاقے کی لوگوں کی دنائی اور موقع شناسی ہی تھی ۔علاقے میں موجود روڈ اور پُل اُس دور کے یادگاریں ہیں اور ساتھ سکول اور دوسرو کام بھی اس دور میں ہوتے رہے ۔ اس کے علاوہ تورکھو کے قابلِ قدر فرزنداں جو مختلف محکموں پر کلیدی عہدوں پر فائض رہے ان کے خدمات بھی علاقے کے لیے نمایاں رہی ۔لاکھ اختلاف کے با وجود حقائق کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان فرزنداں کی کلیدی عہدوں پر موجودی گی تورکھو کے لیے رحمت سے کم نہ تھی ۔ جو دورانِ ملازمت تورکھو کے مسائل حل کرانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی خدمات کا اگر اعتراف نہ کی جائے تو ناانصافی کے زمرے میں ائیے گی ۔
رفتہ،رفتہ وقت اور حالات بدلتے رہے توقع یہ تھی کہ نئے نسل اور ابھرتے ہوئے لیڈر شپ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بلکہ اس سے دو قدم اگے نکل کر علاقے کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتے رہینگے کیونکہ اِس وقت اور اُس وقت کو اگرموازنہ کیا جائے تو اُس وقت وسائل محدود تھے اور لکھے،پڑھے لوگ بھی اتنے نہیں تھے لیکن اخلاص اُ ن لوگوں میں موجود تھی، ارادے مضبوط تھے اور کچھ کرنے کے جذبے تھے ۔اِس وقت وسائل کی بہتات اور لوگوں کی اکثریت تعلیم کی زیور سے اراستہ۔ مگر بدقسمتی سے خلوص کا فقدان اور سوچ منفی! اس کا ایک ثبوت اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے کہ تورکھو مسائلستان بنا ہوا ہے اور لیڈر شپ کی سیاست صرف آغاخان میٹرنٹی کئیر سنٹر تک محدود ہو کے رہ گئی ہے ۔سڑکوں کی حالت جو کچھ ہے سب پر واضح ہے۔ گودام پر کیا کچھ ہے یا نہیں کوئی توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ پینے کے پانی کا مسلہ کس طرح ہے سوچنا گناہ سمجھا جا تا ہے ۔ حکومت کی طرف سے صحت پر کتنی توجہ دی جاتی ہے کسی لیڈر کی کوئی فکر نہیں ۔ سکول میں بچے کتنے ہیں اور اساتذہ مطلوبہ تعداد کے مطابق ہیں بھی کی نہیں۔ سکول میں بچوں کے لیے کلاس روم کی تعداد بچوں کے لیے کافی ہے کہ نہیں؟۔ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں، زلزلہ میں کسی کو کیا نقصان اٹھانا پڑا یا سیلاب سے کتنے لوگوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوئی کسی لیڈر کو پتہ نہیں۔دوسرے بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو فوری حل طلب اور توجہ طلب ہیں ۔ لیکن لیڈر شپ کی نیند حرام اس لیے ہے کہ میٹرنٹی کئیر سنٹر میں فلان ڈاکٹر کو تبدیل کرنا ہے اور فلان کو لانا ہے ۔گویا یہ ہی ایک ڈاکٹر تمام مسائل کا جڑ ہے۔ اس کی تبدیلی سے جملہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔نئے انے والے ڈاکٹر کے پا س الہ دین صاحب کا چراغ ہو گا جو تحصیل تورکھو کے جملہ مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوگی اور موجود ڈاکٹر مسائل کی حل کے راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ واہ یہ کیا ہی تعمیری سوچ ہے ؟لیڈر شپ کے دور اندیشی یہاں سے ظاہر ہوتی ہے ۔ کہ اپنا سارا زور اور توانائی آغاخان میٹرنٹی سنٹر شاگرام کے اندر اور عام پبلک کے درمیان انتشار پھیلانے پر صرف کر رہی ہے۔قرار داد دی جارہی ہے کہ فلان ڈاکٹر کو تبدیل کرنا ہے دوسری طرف سے قرارداد دی جارہی کہ ہم ڈاکٹر فلان کو ٹرانسفر ہونے نہیں دینگے ۔ اب ہر ایک گروہ اپنی برتری تسلیم کرانے کے چکر میں مصروف ہے ۔ان کو یہ جُرآت نہیں کہ تورکھو میں گوارنمنٹ کا ایک ہسپتال ہو ،ایک ڈسپنسری ہو،ایک ڈاکٹر ہو، یہاں کے روڈ ٹھیک ہوں، تعلیمی نظام درست ہو ، عوام کو پینے کی صاف پانی میاثر ہو یا اور کوئی مسلہ حل ہو۔ نہیں ایسے کرنے کی ہمت صرف ڈرئیور قربان جلال کے پاس ہے ۔وہ کبھی کبھار سال میں ایک بار لوگوں کو جمع کرکے ایک جلسہ منعقد کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور جب عوام قربان جلال کی پکار پر لبئیک کہہ کراپنی آواز حکومت تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہی نام نہاد لیڈر پھر متحرک ہوتے ہیں۔ اور قربان جلال کی مقبولیت کو اپنے اپنے کھاتے ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہوکر اِسی جلسہ کو بھی سبوتاژ کرتے ہیں اور پھر چوہوں کی طرح بِلوں میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو تورکھو میں کوئی لیڈر قربان جلال کے برابر مقبول نہیں۔اپنے اعتماد کھو چکے ہیں۔ قربان جلال روڈ اگر خراب ہو تو ڈرئیور برادری کو ایک کال دیتا ہے تو سارے کے سارے گنتی، بیلچہ لیکر حاضر ہوتے ہیں اورفوراً روڈ کھول دیتے ہیں ۔ مسافر منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں، مریض ہسپتال تک رسائی حاصل کرپاتی ہے اورملازم اپنے ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ اور قربان جلال کو دعائیں ملتی رہتی ہیں۔اس سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ تورکھو اس وقت کس موڑ پر کھڑی ہے ۔اس وقت شاگرام کے عوام دو گروہوں میں ان لیڈر شپ کی وجہ سے منقسم ہے اور برائے ہیچ ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہیں۔ان کے درمیان بعض و کینہ پروان چڑھ رہی ہے ۔نتیجہ کوئی مثبت نظر نہیں ارہی ہے ۔ ہر معاشرہ میں کوئی نہ کوئی منفی سوچ والے لوگ بھی رہا کرتے ہیں ان کو موقعوں کی تلاش ہوتی ہے ایسے موقع ہاتھ ائیے توان کے لیے عید ہوتی ہے ۔حدشہ یہ ہی ہے کہ یہ ہی نا عاقبت اندیش لیڈر شپ ان لوگوں کو موقع نہ دیں جو ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔