(رُموز شادؔ )’’ تصویر‘‘ ..

…….. ارشاد اللہ شادؔ ۔۔بکرآباد چترال…..

تصویر در حقیقت ایک عبرت آموز مرقع ہے۔ وہی چیز جسے علماء کرام اور واعظین حضرات اکثر و بیشتر سمجھاتے رہتے ہیں، لیکن دنیا میں مشغولیت اور اس کے قرب میں گرفتار رہنے کی وجہ سے انسان یہ بات سمجھنے سے نہیں رہتا، یہ دنیاکس قدر نا قابل اعتماد اور کتنی جلد ختم ہونے والی ہے ؟ اس پر بھروسہ کرنے والا کتنا سخت دھوکہ کھا رہا ہے اور اس میں مشغول ہو کر قبر اور آخرت کو فراموش کر دینے والا کتنی خطرناک حماقت کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے انسان جتنی ترقی کرلے ، اپنی زندگی کو کتنا ہی محفوظ اور آرام دہ بنا لے، چاند پر جا پہنچے یا ستاروں سے اگلے جہاں کی خبریں معلوم کرنے کا دعوٰی کرے، قدرت کی لا متناہی طاقت کے سامنے اس کی حیثیت کچرے پر رینگنے والے کیڑے سے زیادہ نہیں۔ ساتھ ہی انسان کو اس سے بھی عبرت پکڑنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے غافل ہو کر گناہوں کی نت نئی اقسام اور عجیب عجیب انداز ایجادکرتا جا رہا ہے۔ اس کی بد اعمالیوں نے زمین کے بعد سمندروں اور اب فضاء کو بھی گناہ آلود کر دیا ہے۔ زمینی سفر میں موسیقی اور ویڈیو کی وبا تو عام تھی ہی اب گہرے سمندروں میں تیرتے ہوئے اور فضاء کی بے کراں وسعتوں میں پرواز کرتے ہوئے قدرت الہی کے استحضار اور اپنی کوتاہیوں پر استغفار کے بجائے اللہ رب العالمین کی نا فرمانیاں شروغ کر دی گئی ہیں ۔ حالانکہ ان جگہوں پر انسان قدرت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور اس خدائے ارحم الراحمین کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو اسے بحفاظت منزل تک پہنچا سکے لیکن اس کے با وجود اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان اوقات میں بھی مختلف قسم کے منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور اس سے رحم و کرم کی بھیک مانگنے کے بجائے اس کے غضب کو متوجہ کرنے والے کام کئے جاتے ہیں۔۔
تصویر بھی کسی عکسی حقیقت یا سبق آموز نکتے کی عکاس ہوتی ہیں جو اپنی علامتی زبان سے انسان کو بہت کچھ کہتی رہتی ہیں۔ جاندار کی تصویر سبب لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے اور عذاب شدید سے ہماری حفاظت فر مائے ۔۔ بے جان کی تصویریں اس منظر کو محفوظ کئے ہوئے ہوتی ہیں، جس سے ہم چاہیں تو شریعت کے دائرے کے اندر رہ کر کچھ نہ کچھ سبق لے سکتے ہیں۔ کوئی عبرت یا نصیحت ، کوئی خیال انگیز نکتہ، کوئی فکر آفریں دعوت، انسان سمجھنا چاہے تو خدا تعالیٰ نے اس کی عبرت کیلئے کیا کیا سامان نہیں کئے۔۔۔
اس دنیا کی ہر ہر چیز انسان کو کچھ نہ کچھ سبق دے رہی ہے آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی نشانیاں ، زمین کی پنہائیوں میں بکھری ہوئی قدرت کی علامات ، شب و روز کا آنا جانا، چاند، سورج اور ستاروں کا ایک دوسرے کے پیچھے چھپ جانا ، قسم قسم کی مخلوقات ، انواع و اقسام کے پھل پھول ، رنگا رنگ کے پودے اور درخت،رم جھم برستا پانی ، بہتے ہوئے آبشار اور ندیاں عصر حاضر کی نئی نئی ایجادات ، تیز رفتار زندگی کے عجیب و غریب واقعات، غرضیکہ یہ سب کچھ انسان کو لمحہ بہ لمحہ کچھ نہ کچھ سبق دے رہی ہے ۔ کسی نہ کسی حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ قدرت کی تخلیق کردہ ہر چیزکائنات میں پیش آنے والا ہر واقعہ ، گرد و پیش کے حوادثات ، اس عالم تغیر پذیر کے حیرت انگیز حالات، ہر چیز انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ، نصیحت لینے کی فکر پیدا کرتی ہے اور زندگی کا رخ درست کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ لیکن انسا ن کے دھوکے باز نفس اور کوتاہ بیں آنکھیں اسے ظاہر کے پردے کے پیچھے باطن کی حقیقت دیکھنے نہیں دیتے۔ اس کی فریب خوردگی کی عادت اسے دنیائے فانی کے رنگ و بو کے مزوں سے بالا تر ہو کر سوچنے کی مہلت نہیں دیتی، اس کی عقل مادی تقاضوں کے پردوں تلے کسمسائی رہتی ہے، فہم و شعور اضمحلال کا شکار ہوکر خواہش نفس کی پیروی میں اندھا دھند لپکے چلے جاتے ہیں۔ غور و فکر کے سوتے غلط رخ میں بہتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اجل کا پیامبر آکھڑا ہوتا ہے ، مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے ، عمر کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور انسا ن خالی ہاتھ ان منزلوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جہاں راستے میں کسی کو کچھ نہیں ملتا، صرف وہی کچھ کام آتا ہے جسے اپنے توشہ دان میں پہلے سے محفوظ کر لیا ہو۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔