(رُموز شادؔ ) ……..’’محمد جاوید حیات سر کے نام ایک تحریر‘‘

(ارشاد اللہ شادؔ ۔بکرآباد چترال)

کسی عمومی شخص پر لکھنا ہو تو عموماََ چند تعارفی جملے اور کچھ خوبیاں لکھ کر تحریر کو مکمل کیا جا سکتاہے۔ لیکن جب بات کسی ہمہ جہت، بے مثال ، اور ہر دل عزیز شخصیت کی ہو، تو تحریر کا حق ادا کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ دانا کہتے ہیں کہ انسان کے دو باپ ہوتے ہیں ۔ ایک وہ، جو اُسے آسمان سے زمین پہ لے کر آتا ہے اور دوسرا روحانی باپ، جو زمین سے دوبارہ اُسے آسمان کی بلندیوں پر لے کر جاتاہے۔ روحانی باپ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ استاد ہی اپنے شاگرد کی روحانی، دینی ، علمی اور اخلاقی تربیت کرتاہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت میرے محترم استاد جناب محمد جاوید حیات صاحب کی بھی ہے۔ میرا ناقص علم اور محدودذخیرۂ الفاظ ان کی شخصیت کو احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہے۔ لیکن پھر بھی چند سطور تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ دھیمی آواز، نرم لہجہ، با کردار اور با اخلاق ، طبیعت حد درجہ اعتدال اور ٹھراؤ، مثبت سوچ اپنے مضمون پر مکمل عبور اور تدریس کے فن سے مکمل آگاہی کی وجہ سے ان کو مثالی استاد کی حیثیت حاصل ہے ۔ علم کی شمع جلانے والے اساتذہ کرام میں اردو ادب کے استادمحمد جاوید حیات صاحب گویا تپتے ریگستان میں روشنی اور ٹھنڈک کا استعارہ ہے۔
سر جاوید حیات صاحب جو اپنے شاگردوں کیلئے بہ یک وقت ایک با رُعب شخصیت ہونے کے ساتھ ایک مشفق والد اورخوش مزاج دوست کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔جب وہ کلاس میں داخل ہوتے ہیں تو تمام طلبہ مؤدب طریقے سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ جب پڑھانے لگتے ہیں تو طلبہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ پُر اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ سر جاوید حیات اپنے شاگردوں کی ہر ممکن حد تک حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ ان کے اندر چُھپی ہوئی صلاحیتیں سامنے آسکیں۔ انہیں انگریزی، اردو، زبانوں پر عبور کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی دسترس حاصل ہے ۔ ان کے شاگرد اس لحاظ سے بھی خوش نصیب ہے کہ اُن کا استاد جہاں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، انگریزی اور دیگر کئی پیچیدہ مضامین کی گُتھیوں کو سلجھانے میں اُن کی مدد کرتاہے، وہیں مذہبی معاملات میں بھی خاصی رہنمائی کرتاہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، دینی اور دنیاوی لحاظ سے ایک بہترین استاد ہونے کے باوجود سر جاوید حیات صاحب کے عمل سے کبھی غرور و تکبّر یا خود پسند ی کی جھلک نظر نہیں آتی بلکہ انکساری ، نرم روی، اور بُرد باری کے ساتھ ہمیشہ ایک نرم تبسم ان کے چہرے کا احاطہ کئے رکھتاہے۔نہ صرف کمرہ جماعت ، بلکہ زندگی کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی حاصل کرنے کیلئے شاگرد ان سے رجوع کرتے ہیں اور کتنے ہی اہم امور میں مصروف کیوں نہ ہو طلبہ کو کبھی مایوس نہیں لوٹاتے۔وہ اپنے شاگردوں میں کوئی امتیاز نہیں برتتے ، بلکہ ہر ایک کو یکساں عزت دیتے ہیں۔ وہ اپنے الفاظ سے نہیں ، بلکہ عمل سے طلبہ کو انسانی ہمدردی، خلوص اور دردمندی جیسی اعلیٰ صفات پیدا کرنے درس دیتے ہیں۔ یہ نہ تو کسی جذباتی انسان کے خیالات ہیں اور نہ ہی کوئی مبالغہ آمیز خاکہ ، بلکہ یہ تو ڈائری کا ایک ورق ہے۔ دل کی ڈائری کا ورق، جسے کھولا جائے ، تو کئی چہرے، کئی ان مٹ نقوش اور لازوال خدوخال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ میرے دل و ذہن میں سب سے نمایاں اور گہرے نقوش سکول کے اساتذہ کرام کے ہیں۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے اساتذہ کرام کا احترام کرتی ہے کیونکہ قوم کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہوتاہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والامؤرخ جب ضلع چترال کی تاریخ لکھے گا تو سر جاوید حیات کانام سنہری حروف سے رقم کیا جائے گا۔ ایک طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں اُن کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے، تا کہ آپ اسی طرح انمول ہیرے تراشتی رہیں۔ اور ان کے علم میں مزید وسعت عطا فرمائے، اور اپنی رحمت کا سایہ قائم رکھے۔(آمین)

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔