دادبیداد…..میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل

…….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

بدھ 20اپریل کے اخبارات میں پاکستاں پیپلز پارٹی کے لیڈر اور سینیٹ میں قائد حزب اختلا ف سینیٹر اعتزاز احسن نے میڈیا کے سامنے ایوان بالاکے اندر اٹھائے گئے نکا ت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو غیر متعلقہ جگہوں پر غیر متعلقہ گفتگو میں وقت ضائع کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے خا ندان کے اثاثوں کا پورا حساب پیش کر نا چایئے اور پا نامہ لیکس کے معاملے میں اپنا دفاع آئینی اور قانونی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آکر پورے دلائل کے سا تھ کرنا چاہئے ۔یہ سیاسی نہیں خا لصتاً آئینی اور قانونی مسئلہ ہے۔ اس کا حل بھی آئین اور قانون میں موجود ہے۔ اگر آف شور کمپنیوں کے ذریعے منظرعام پر آنے والے اثاثے شریف خاندان کے ہیں تو یہ اثاثے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں ظاہر کئے گئے یا نہیں ؟ اگر آف شور کمپنیوں میں دکھائے گئے اثاثے شریف خاندان اور وزیر اعظم کی اولاد کے نہیں ہیں تو پھر یہ اثاثے کس کے ہیں ؟ پانامہ پیپر میں کیوں جھوٹ بولا گیا؟قرآن پاک میں مختلف مقا مات پر5 بار یہ تنبیہ آئی ہے کہ مال اور اولاد آدمی کیلئے آز مائش اور فتنہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو اپنی اولادوں کی وجہ سے بار بار شرمندگی سے دو چار ہو نا پڑا ۔چو ہدری پر ویز الٰہی کو اپنی اولاد کی وجہ سے آصف علی زرداری کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑا ۔آج میاں نواز شریف کو اپنی اولاد کی وجہ سے بھی کڑوی گو لیاں نگلنی پڑ رہی ہیں ۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مہذب اور نپے تلے الفاظ میں تجو یز دی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کر نے کے لئے اوپر سے نیچے تک سب کا احتساب ہو نا چاہیے ۔آرمی چیف نے بے رحم کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔تاہم بین السطور میں یہ بات ضرور آئی ہے کہ احتساب ہو تو بے رحم احتساب ہو گا ۔اس میں “اگر مگر” نہیں ہو گی ۔او نچ نیچ نہیں ہو گی ۔احتساب کے نام پرق لیگ نہیں بنے گی ۔محتسب کے ذریعے اپنا الو سیدھا کر نے کا دھندا نہیں چلے گا اور احتساب کو ن کر ے گا یہ سب کو پتہ ہے ۔وزیر ستان آپر یشن جب راجن پور تک آیا ہے تو اسلام آباد کا رخ بھی کر سکتا ہے ۔مارشل لاء کا راستہ رو کنے کے لئے جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آرٹیکل 58 (2)بی کا اضافہ کیا تھا ۔اس آرٹیکل کے ذریعے صدر مملکت کو اسمبلیاں تو ڑنے کا اختیار دیا گیا تھا ۔اس آرٹیکل کے تحت جنرل ضیا ء الحق نے ایک بار، غلام اسحاق خان نے دو بار اور فاروق لغاری نے ایک بار اسمبلیوں کو تو ڑا ۔نئے انتخاب کروا ئے۔ جب غلام اسحاق خان دوسری بار اسمبلی تو ڑنے والے تھے ۔ اس دن کا واقعہ رو ئیداد خان نے اپنی کتاب ” پاکستان اے ڈریم گان سوور ” میں لکھا ہے ۔جو نہی محترمہ بے نظیر بھٹو کو اطلاع ملی کہ اسمبلیان ٹوٹنے والی ہیں۔ انہوں نے رات 10بجے آفتاب احمد خان شیر پاو ،سنیٹر گلزار خان ،سردار فاروق احمد خان لغاری اور آفتاب شعبان میرانی پر مشتمل وفد ایوان صدر بھیجا اور اپنے خدشے سے صدر کو آگا ہ کر کے اسمبلیاں تحلیل نہ کر نے کی درخواست کی ۔ساری باتیں سننے کے بعد غلام اسحاق خان نے کہا ۔ ” اطمینان رکھو میں کو ئی غیر آئینی قدم نہیں اُٹھا ؤں گا ” اگلے دن غلام اسحاق خان نے اسمبلیوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکو مت کے ساتھ گھر بھیج دیا۔58(2) بی کی مو جو دگی میں یہ قدم غیرم آئینی ہر گز نہیں تھا ۔آئین میں اٹھا رویں ترمیم کے ذریعے 58 (2)بی کو ختم کر کے جمہوری انداز میں آئینی طریقے سے حکومت بدلنے کا راستہ بند کر دیا گیا ہے ۔اب ٹر پل ون بر یگیڈ کے سوا کو ئی چارہ کار نہیں رہا ۔یا تو سیاسی پارٹی میں اتنی طاقت ہو نی چاہیے کہ اسمبلی کے اندر سے پا رلیمانی پارٹی کے ذریعے نئی حکومت لائی جائے ۔یا آرمی چیف کے انتباہ کو عملی جامہ پہنانے کا انتظا ر کیا جائے ۔ میا ں محمد نو از شریف 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں ۔چو تھی بار وزیر اعظم بننے کی گنجا ئش نہیں ہے ۔اس لئے یہ میاں نو از شریف کا آ خری را ونڈ ہے ۔اس کے ابتدائی تین سال دو وجو ہات سے مسائل اور مشکلات میں گزرے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن محمد صفدر اور ان کی بیٹی مر یم نواز کو ضرورت سے زیادہ وقعت و اہمت ملی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ و زیر اعظم کی کچن کا بینہ کے چاروزرا ء کو کھلی چھٹی دے کر پو ری کا بینہ اور پا ر لیمانی پارٹی کو دیوار سے لگایا گیا ۔مینجمنٹ کی اصطلاح “کو رس کر کشن “کی گنجا ئش ہر سسٹم میں ہو تی ہے۔ سسٹم کو مانیٹر کرنے والا کورس کرکشن تجو یز کرتا ہے۔اگر ان اصطلاحات کو اردو میں بیان کیا جائے تو بات یوں کہی جا ئیگی کہ کام کر نے والا پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے ۔اپنے کام کا جا ئزہ لیکر غلطیوں کی اصطلاح کر کے آگے بڑھنے کا راستہ نکا لتا ہے ۔اگر ایسانہ کر ے توگہری کھائی میں گر جاتا ہے ۔ایسی کھائی میں مسلم لیگ (ن) دو بار گر چکی ہے۔ اب تیسری بار غلطی کی گنجائش نہیں رہی ۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے میاں محمد نواز شریف کے دو سال رہ گئے ہیں ۔ اگر پا رٹی مضبوط ہو گی ۔پا رلیمانی پارٹی کو اختیا رات ملے ۔کچن کا بینہ ختم کر دی گئی ۔پو ری کا بینہ کو اعتماد میں لیا گیا ۔مریم نواز اور چو ہدری نثار سے چھٹکارا پایا گیا ۔تو اگلے دوسال خیریت سے گز ریں گے ۔اس کے بعد رجب طیب اردگان کی طرح میاں نواز شریف صدر مملکت بھی بن سکیں گے ۔مسلم لیگ (ن) اپنی مدت پو ری کر نے کے بعد اگلے 5 سال کی باری بھی لے سکے گی ۔مُر غی اپنے سامنے دانہ دیکھتی ہے ۔دانہ پر چھپٹی ہے ۔
خال تو دانہ دانہ و زلف تو دام دام
مر غے کہ دانہ دید گر فتا ر دام شد
مسلم لیگ (ن)کی صفوں میں اچھے لو گو ں کی کو ئی کمی نہیں راجہ ظفر الحق ،چو ہدری جعفر اقبال ،سردار مہتاب احمد خان چند نمایاں نام ہیں ۔100 سے زیادہ ایسی نامور شخصیات ہیں جو قومی اسمبلی اور سینٹ میں مو جود ہیں۔سامنے دانہ دیکھنے کی بجائے 50 سال آگے اور 100 سال آگے کی منزل پر نظر رکھنی چاہیے ۔مر یم نواز کو بے نظیر بھٹو بنانے والی فیکٹری ابھی وجود میں نہیں آئی ۔کیپٹن صفدر کو زرداری بنانے والی ٹیکنا لوجی اب تک درریافت نہیں ہو ئی ۔پنگا لینے والوں کی جگہ سنجیدہ اور بالغ نظر اراکین اسمبلی کو کا بینہ میں لینا بہتر ہو تا ہے ۔آج کل اسلام آباد کے درودیوار پر ایک ہی نو شتہ دیوار ہے ۔یہ وہ بات ہے جو علامہ اقبال نے 100 سال پہلے لینن کی زبان سے کہلو ائی تھی :
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تز لزُ ل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔