پس وپیش …..عظیم اِنسان

 تحریر: اے ایم خان چترال ،چرون

اِنسان کی تعریف سے اِنسانیت کی شناخت اُس عظیم شخصیت سے ہوتی ہے ، جسے عظیم نہ کہنے والا تو نہیں ہوسکتا ، لیکن کوئی اُس کی عظمت کے برعکس کوئی مثال نہیں دے سکتا۔اگر اِنسانیت کی تعریف کرتے وقت اُس کی مثال دی جائے ،تو وہ نہایت مناسب مثال ہوسکتا ہے۔ عظمت کا معیار اُس کا کام ، کردار اور اِنسانیت دوستی سے بڑھ کر اُسکا وہ وژن ہے جسے لوگ عموماًایڈیا کہتے ہیں، جس نے اِنسان کے فلاح کیلئے پوری دُنیا میں ایک مثال رکھ دی۔ اپنی ذات ، خاندان ،فائدہ، شہرت، شخصیت، دولت اور وقعت سے بالاتر ہوکر اِنسانیت خصوصاً غریب کیلئے کام کرنے کا نام لیا جائے تو دُنیا میں میں شاید اُن چند لوگوں کے صف میں ایک ہی مکمل اِنسان کا کوئی مثال ہے توپاکستان میں وہ عبد الستا ر ایدھی ہیں۔
عبد الستار ایدھی کے بارے میں کون نہیں جانتا پھر بھی ،اید ھی صاحب 1928 کو جوناگڑھ (انڈیا) کے قریب ایک چھوٹے گاؤن بنٹوا میں پیدا ہوا۔ اِنسان سے ہمدردی، اِنسان دوستی اور خدمت کا جذبہ اُس کی روح میں اُس وقت جگہ لی جب گیارہ سال کی عمر میں اُسکی والدہ اپاہچ ہوئی، اور بعد میں ذہنی مریض ہوگئی۔ ایدھی نے اپنی جوانی اپنے والدہ کی دیکھ بال، خوراک ، کپڑے ، صفائی، ضروریات اور مدد کرنے میں گزاری۔ ایدھی کی ابتدائی تعلیم بھی ماں کی دیکھ بال سے پوری نہ ہوئی ،اور اُس کی ابتدائی تعلیم مشکلات سے ہوئی جس سے ایک سوچ نے جنم لی ، جو بعد میں ایک عظیم فلاحی اِدارے کی شکل اختیارکی۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد 1947ء کو ایدھی پاکستان منتقل ہوکر روزگارکیلئے مزدوری شروع کی ، بعد میں تھوک مارکیٹ کراچی میں کمیشن ایجنڈ بھی کام کیا۔ چند سال بعد اید ھی نے اپنے کمیونٹی کے چند ممبروں کے مالی معاونت سے ایک فری ڈسپنسری کھول دی، جوکہ اُس کے وژن کی طرف ایک قدم تھا۔ بعد میں اُس نے اپنا ایک ٹرسٹ ’’ایدھی ٹرسٹ‘‘ کھول دی۔ ٹرسٹ کیلئے بعدمیں اُس نے مدد کیلئے اُس نے اپیل کی ، تو لوگوں کا رویہ حوصلہ افزا تھا اور اُس نے 2لاکھ فنڈ جمع کردی۔ایدھی کا یہ ٹرسٹ اپنے وسعت اور حدود سے بڑھتا گیا ، اور اُس نے ایک میٹرنٹی ہوم ، اور کراچی جیسے بڑے شہر میں ایمبولینس سروس شروع کردی۔ ایدھی فاؤنڈیشن میں کام کرنے والی ایک نرس بلقیس سے ایدھی نے 1965ء میں شادی کرلی۔ ایدھی فاؤنڈیشن سوشیل سروس کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس میں 2ہزار ملازمین کام کررہے ہیں اور اِن میں 500ملازمین خواتین ہیں، لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ نہ ایدھی اور نہ بلقیس ایدھی تنخواہ لیتے ہیں ، اور اُن کے کام کا حالت یہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ سماجی پروگرامز اور دوسرے افتتا حی مواقع پر میں مجھے مدعو نہ کریں جس سے میرا وقت ضائع ہوتا ہے ، جوکہ اِنسانی فلاح کیلئے وقف ہے!۔
ایدھی فاونڈیشن اب پاکستان میں سب سے بڑا ایمبولینس سروس مہیاکرنے والا فلاحی اِدارہ ہے ،اور ساتھ تعلیم،گھراور یتیم،بچوں کو اپنانا، ہسپتال،ہیلپ لائن سروس،شادی بیورو،روزگار سکیم، اور جانوروں کا ہاسٹل جیسے کام اِس فاؤنڈیشن کی چھتری کے نیچے کام کررہے ہیں۔
ایدھی اب لاکھوں کی تعداد میں غریب لوگوں کیلئے اُمید کی ایک کرن ہے۔حالیہ دِنوں میں جب اُس کی صحت خراب ہوئی تو پورے ملک بلکہ دُنیا میں اُس کی صحت یابی کیلئے دُعائیں ہونے لگے۔ اِس دُنیا جو کچھ لوگ ہوتا ہے وہ ذاتی لالچ،حرص،فائدہ ، شہرت ، اور دیکھاؤے کیلئے ہوتا ہے، اور کیاجاتا ہے ۔ ایدھی واحد دُنیا میں اُن چند اِنسان دوست لوگوں کی صف میں شامل ہے جوکہ پاکستان کیلئے اعزاز ہے ، اور جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں ، اور فخرکرنے کے قابل شخصیت ، اور ساتھ اپنی ذات میں سنت پیغمبری یعنی سادگی کا ایک نمایان مثال!۔ دُنیا میں کئی ایک اِنسانیت کے ہیرو گزر چُکے ہیں جن میں ایدھی اُن چند لوگون میں شامل ہے جنھوں نے اپنی ساری زندگی غریب، ضرورت مند، بیمار اور حاجت مند کیلئے گزار دی ، جس میں مادر ٹیریسااور مہاتما گاندھی اُس سے پہلے ایک مثال چھوڑ کر جاگزرے ہیں۔
گوکہ ایدھی اِنسانیت کی خدمت میں وہ عظمت اپنے کام اور خدمت سے حاصل کر چکا ہے ۔ اور لاکھوں لوگوں کے دِلوں میں اُس کی عزت اور دُعاؤ ں سے بھرپور ہیں ۔ اور پاکستان اور دُنیا کے کئی ایک اہم ایوارڈ اُن کے کاموں اور سروسز کی بنیاد پر اُس کو مل گئے ہیں ۔ اور ایک اِنعام جس کا وہ حقدار بھی ہے وہ اِسے پچھلے سال ہی ملنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے نہیں ملا۔
نوبل پیس پرائز (Noble Peace Prize) کا حقدار تو بہت پہلے تھا،لیکن اِس سال تو یہ اِنعام اُسے ملنا چاہیے۔ دُنیا میں ایدھی کی طرح چند لوگ ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان میں اِنسانیت کی خدمت میں ایدھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایدھی بحیثیت ایک عظیم اِنسان نوبل پیس پرائز کا حقدار ہے ،دعویدار بالکل نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔