موجودہ دنیا کی ہیت

…….تحریر :اقبال حیات ؔ آف برغوزی……
اللہ رب العزت کی اس کائنات کے رنگ وبو بدل گئے ۔ شب و روز گھٹ گئیں۔ زندگی میں برکت ختم ہوئی ۔ اس میں بسنے والوں کی زندگی کے اسلوب اور اطوار میں فطری آثار غائب ہوئیں ۔ پرندوں کے چہچہانے کی لذت مفقود ہونے کے ساتھ ان کے انسانوں سے انسیت خوف و ہراس میں بدل گئیں ۔ انسانی لباس میں تصنع کا رنگ چھانے کے ساتھ ساتھ شکل و صورت میں قدرتی نکھار مصنو عیت کے رنگ میں ڈھل گئے ۔ ہر کسی کو قدرتی حسن کو رنگ میں پالش کرنے کا مرض لدحق ہے ۔ نہ بچپن کا حسن اور نہ جوانی کی حقیقی مستانی میں حلاوت ہے ۔ خوراک کی خوشبو ، دل آویزی اور قدرتی لذت سے عاری ہوگئے ۔ رکھ رکھاو کی کیفیت میں متانت اور سنجیدگی کا فقدان ہے ۔ کردار اور گفتار حقیقی خوشبو سے خالی ہوئیں ۔ قناعت پسندی کا ہوس پرستی میں بدل جانے سے مطمئن اور پرسکون ذندگی تصنع اور بناوٹ کے دلدل میں پھنس گئی۔ رواداری اور وضع داری مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ ایک دوسرے کا سہارا بننے والے انسان ایک دوسرے سے خوف محسوس کرنے لگے۔ خاندانی رشتوں اور ناطوں کی لذت باہمی منافرت چپقلش اور سرد مہری کا شکار ہوئے ۔ حکمت اور دلفریب الفاظ سے مذہبی پر چار جارہانہ اور تشدد آمیز انداز میں بدل گئے ۔ آذان کی روح بلاوے کی جگہ دکھاوے کی صورت اختیار کی ۔ حکمرانوں کی جذبۂ خدمت کو مفادات کی ہوس نے دبوچ لئے ۔ علم کے چراغ تلے جہالت کی تاریکی رقصان ہے ۔ والدین سے محبت کے جذبات آلات جدیدہ سے وابستگی میں منتقل ہوئے ۔ مادہ پرستی نے اذھان کو دبوچ لئے۔ ہر کوئی خود غرضی اور مفاد پرستی کا شکار ہے ۔ ایک دوسرے کیلئے دھڑکنے والے دل باہمی منافرت اور بیگانگی کی کیفیت سے دوچار ہوئیں ۔ والدین جیسے عزیز رشتوں کی موت پر بھی محبت اور عقیدت کے آنسو ؤں سے نہ اولاد کی آنکھیں نم ہوتی ہیں اور نہ خویش و اقارب کے چہروں پر غم کے آثار ملتے ہیں ۔ نہ معصوم بچے کی حرص و ہوس اور لالچ سے نا آشنائی اور بیگانگی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور نہ جوانی میں متانت اور سنجیدگی کے آثار ملتے ہیں ۔ اولاد اور والدین کی ایک دوسرے کی طرف اٹھنے والی نظروں پر بھی مطلب اور غرض کا عنصر غالب ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے اور حق مارنے والوں کے ہاتھ میں کوڑا دیکھ کر دم بخود ہونے کے سبب انسانیت دم توڑنے اور حیوانیت نشونما پانے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ ونایت اور سغلہ پنی کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ یہ باور کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ کہ خالق نے ہمیں احسن تقویم پر پیدا کیا تھا ۔ جہاں شریف دبنے اور دندنانے لگیں ، خوشامد ، چابلوسی ، ضمیرفروشی ، چغل خوری ، ابن الوقتی ، بے ایمانی ، خیانت ، حرام خوری کے اوصاف فروغ پارہے ہیں ۔ پوری قوم بکا ومال کی ایک منڈی بن گئی ہے ۔ ذندگی کا ماحول اس قدر سفلہ پرور ہوا ہے کہ خریدنے والا کسی شرم کے بغیر آدم ذاد کو خرید تا ہے اور بکنے والا کسی شرم و حیا کے بغیر بکتا ہے ۔ خدمت سے وابستہ لوگ علم اور شعور کے حامل ہونے کے باوجود ضمیر نام سے نا آشنا ہیں ۔ انصاف اشرافیہ کی لونڈی بن گئی ہے ۔ ایسے ماحول اور حالات کے اندر کسی قسم کی بھلائی اور اچھائی کی امید اور توقع رکھنا دیوانے کے خواب کے مما ثل لگتا ہے اور دلوں کے اندر مچلتے ہوئے خواہشات کا اظہار سر د آہوں کی صورت میں حلق سے نیچے ہی جمود کا شکار ہونا یقینی امر ہے ۔ جس کا حقیقی رنگ روزگار کے طلبگار قوم کی نوجوان تعلیم یافتہ نسل کے چہروں پر وقتاََ فوقتاََ برائے نام ٹیسٹ اور انٹر یو کے مراحل سے گذرنے کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔