صدا بصحرا ……پراکسی وار اور سی پیک

……..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …..

خیبر پحتونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 28 اپریل کو ایک بار پھر خبر دار کیا ہے کہ صو بائی حکومت کے تحفظات دور نہیں کئے گئے۔ تو چا ئنا پاکستان اکنامک کو ریڈور کو صوبے سے گزارنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اس سڑک کا اردو نام چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔۔مخفف کرکے اس شاہراہ کو CPEC یا سی پیک بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام اور نظریہ پاکستان کی طرح ہر چیز ہر کام اور ہر منصوبے کو متنازیہ بنایا جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم بھی سی پیک کی طرح کا منصوبہ تھا۔ واپڈا نے اس منصوبے کو متنازعہ بنایا اور منصوبہ ناکام ہوا۔ بظاہر ایسا نظر آتا تھاکہ سیاسی جماعتیں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتی ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سیاسی جماعتوں کو واپڈا حکام نے باقائدہ بریفنگ دے کرکالا باغ ڈیم کے خلاف میدان میں اتارا تھا۔ اس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات تھے۔ واپڈا حکام کے ذاتی مفادات کا مسئلہ تھا۔تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے میں واپڈا حکام کو ماہانہ کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے۔کالا باع ڈیم جیسے دو منصوبے بن جائیں تو واپڈا حکام اضافی آمدن سے محروم ہو جائیں گے۔ راز 20 سال بعد کھل گیامگر اب کیا ہوت جب چڑیا چک گئیں کھیت ۔ چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور CPECبھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس کو روکنے میں عالمی طاقتوں کے مفادات ہیں۔یہ عالمی طاقتوں کی پراکسی وار ہے۔ پراکسی وار (proxy war)انگریزی ترکیب ہے۔ اردو میں مستعمل ہے۔اس کا سلیس اردو ترجمہ خفیہ لڑائی ہے۔ ایسی لڑائی جس میں دونوں دشمن پس پردہ رہ کر تیسری پارٹی کو چوتھی پارٹی سے لڑاتے ہیں۔لڑائی کے دوران اور لڑائی کے بعد اپنے مفادات سمیٹنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ افغانستان کی جو جنگ1978ء میں شروع ہوئی وہ امریکہ اور سویت یونین کی خفیہ جنگ تھی ۔جنگ کے ایک مرحلے میں سویت یونین سامنے آیا ۔ مگر امریکہ پردے کے پیچھے رہا۔جنگ ختم ہونے کے بعد سارے فوائد امریکہ نے سمیٹ لئے۔کھربوں ڈالر کی دولت اور عالمی امور میں اجارہ داری امریکہ کو ملی۔ مرنے والے افغان اور پاکستانی تھے۔ بقول فیض احمد فیض ؔ :
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا
اس مثال کے بعد سی پیک کا پورا معاملہ کھل کر سامنے آجاتاہے۔ اس میں کوئی شک اور ا بہام نہیں رہتا کہ سی پیک میں عالمی طاقتوں کے مفادات ہیں۔ افغان جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو افغانستان کے اندر تعمیراتی کاموں میں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا۔ سارے تعمیراتی کام اور ساری سڑکیں بھارتی فوج اور بھارتی تعمیراتی کمپنی اور بھارتی خفیہ ایجنسی کو دیدیے۔ صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے ساتھ تجارت، صنعتی ترقی اور سماجی بہبود کے شعبے میں بھارت کو افغان حکومت کا قریبی اتحادی بنادیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں کو امریکہ نے مہاجر بنا کر 1979ء سے1991ء تک 12سال تک پاکستان میں رکھا تھا۔ وہ سب پاکستان کے جانی دشمن بن گئے۔ جو افغان مہاجر اس وقت پاکستان میں موجود ہیں۔ وہ بھی پاکستان کو اپناپکا دشمن قرار دیتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ افغانستان کی تعمیر وترقی میں بھارت آگے آگے ہے۔ لیڈر کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کا کوئی ذکر بھی نہیں۔ اس لیے پاکستان کی خفیہ ایجنسی افغانیوں کوپاکستان کے خلاف ننگی تلوار بنا کر سامنے لا رہی ہے۔ ایسی تلوار جو زہر میں بجھی ہوئی ہو۔ چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری کا منصوبہ اگلے 10سالوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا تو پاکستان کے طول وعرض میں چین کے تعمیراتی کام ہونگے ۔صنعتی اور تجارتی منڈیاں ہونگی۔ ان کی حفا ظت کے لیے سکیورٹی کا انتظام ہوگا۔ امریکہ ، بھارت اور افعانستان کو اس میں رٖٖخنہ ڈالنے کا موقعہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔اس لیے تینون ملکوں نے یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو کسی بھی صورت کامیاب ہونے نہیں دینگے۔ اگر گزشتہ صدی کی تاریح کا جائزہ لیا جائے تو 1998ء میں پاکستان طاقتور ملک بن کر سامنے آیا تھا۔ فیلڈمارشل ایوب خان نے”فرینڈز ناٹ ماسٹرز ” کے نام سے کتاب لکھی تو معاملہ اُلٹ گیا،ملک میں فسادات کرائے گئے۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔1977ء میں پاکستان نے ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنی شناخت بنائی تو ملک میں پھر فسادات کرائے گئے۔ پاکستان کو افغان جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوا۔ نظریہ پاکستان کو شدید دھچکہ لگا۔سماجی ڈھانچہ ٹوٹ گیا۔علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیااور ملک کے اندر ملک کے خلاف لڑنے والے مسلح افواج پیدا ہو گئے۔ہیروئین اور کلاشنکوف کا کلچر لایا گیا۔ 2001ء کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر سر اُٹھایا تو عالمی طا قتوں نے شور مچایا۔یورپی یونین ، امریکہ اور دولت مشترکہ نے جمہوری نظام کا مطالبہ کیا ۔ جمہوری نظام کو این آر او تک لے جایا گیا اور ایک بار پھر ملک کو پٹڑی سے اُتار دیا گیا۔جمہوریت اور این آر او کی تکرار نہ ہوتی تو 2016ء میں پاکستان اقتصادی لحاظ سے بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کی طرح ترقیافتہ ملک بن چکا ہوتا۔سی پیک(CPEC)پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑاتجارتی، اقتصادی اور معاشی منصوبہ ہے۔اس منصوبے کی تکمیل سے اگلے 10سالوں میں پاکستان کودوبئی ، قطراور ابوظہبی کی طرح ترقی کے مواقع ملنے والے ہیں۔بھارت ، امریکہ اور افغانستان ہر گز نہیں چاہتے کہ پاکستان ان مواقع سے فائدہ اٹھائے۔اس لیے ایک طرف دہشت گردی کے نیٹ ورک کو وسعت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی اختلافات کو ہوا دے کر پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کی ایجنسیوں کو اچھی طرح علم ہے۔ اخبار ی حلقوں میں بھی یہ بات گردش کر رہی ہے۔اس وقت کراچی،کوئٹہ ، جنوبی پنجاب ، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے 6ہزار سے زیادہ نوجوان افغانستان میں دشمنوں سے ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اگر مہمند، خیبر، باجوڑ، دیر اور چترال سے جانے والے نوجوانوں کی درست تعداد معلوم کی جائے تو ایک ہزار سے کم نہ ہوگی۔چترال جیسے پرامن ضلع میں 170نوجوانوں کو افغانستان لے جایا گیاہے۔2013 ء میں ایک جرگہ کے ذریعے64نوجوانوں کو واپس لایا گیا تھا ۔ بے روزگاری سے تنگ آکر وہ نوجوان ایک سال بعد واپس چلے گئے۔ان میں سے بعض نوجوانوں کو بھارت کے شہر گوا(Gua)میں دہشت گردی کی اعلی تربیت دی جارہی ہے۔یہ نوجوان پراکسی واردشمن کے ہتھیار اورآلہ کار ہونگے۔سی پیک ((CPECمنصوبے کے خلاف ان نوجوانوں کو کلبھوشن یا دیو کی طرح خصوصی ٹاسک دیا جائے گا۔ وطن عزیز کے دفاع کے لیے بلوچستان، کراچی، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے حساس اضلاع میں مڈل اور میٹرک پاس نوجوانوں کے لیے روزگارکے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور سی پیک منصوبے کے خلاف پراکسی وار یا خفیہ جنگ کو اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ کچل دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارہ حسن ظن یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دونوں کو CPECکے خلاف بننے والے عالمی اتحاد کا بخوبی علم ہوگا اور دونوں اس معاملے پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرینگے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔